پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت اور حکومتی ناکافی اقدامات اور پیٹرولیم مصنوعات کی ہوشربا قیمتوں میں اضافے نے پوری قوم کو مہنگائی کی ایک نئی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومت کے اقدامات کے خلاف اب اپوزیشن نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پی ٹی ایم کا جمعے سے ملک بھر میں بدترین مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ حکومت کاوہی دعویٰ ہے کہ اب بھی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گنجائش ہی باقی نہیں بچی تھی کہ یہ قدم اٹھاتے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں جب وزیراعظم عمران خان حزب اختلاف میں تھے تو پیٹرول اور گیس کی مہنگائی کا تمام تر ذمے دار حکومت وقت کو ٹھہراتے رہے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے کہ اقتدار میں آنے کے بعد غریب آدمی پر ٹیکس نہیں لگائیں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ممکن ہے کہ اقتدار کی مجبوریوں نے انہیں ابھی تک اس اقدام سے روکا ہوا ہے۔ جب پی ٹی آئی حکومت نے 2018میں اقتدار سنبھالا تو اُس وقت ایک ڈالر، پاکستان کے 121روپے کے برابر تھا۔ حکومتی موقف کے مطابق ماضی میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ حکومتوں نے لگ بھگ 18بلین ڈالرز پر تجارتی خسارہ چھوڑا۔دراصل یہ تجارتی خسارہ یا کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ اس عمل کو کہتے ہیں جب آپ کی درآمدات آپ کی برآمدات سے بڑھ جائیں اور یہ خسارہ لگ بھگ پاکستان کی 5.7 مکمل پیداوار کے برابر تھا ، جس کے واضح طور پر یہ معنی ہیں کہ پاکستان کو ان 18 بلین ڈالرز کی ادائیگی کے لیے تو اپنی قومی پیداوار کو مزید موجودہ قومی پیداوار سے 6 فیصد تک اوپر لیکر جانا چاہیے تھا یا ٹیکس لگا کر اتنے پیسے وصول کرلیے جاتے کہ درآمدات کی قیمت بھر دی جاتی۔ اب تحریک انصاف کی حکومت نے آنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ دوست ملک سعودی عرب سے3 سال کے عرصے کے لیے ڈیفرد پیمنٹ پر تیل مل جائے تاکہ مزید بوجھ تجارتی خسارے میں نہیں پڑیں وہ تو مل گیا مگر اب بات تھی کہ موجودہ خسارے کو کس طرح سے کم کیا جاتا۔ حکومت جو نئی بر سر اقتدار آئی تھی اور عمران خان جو اپوزیشن کے دنوں میں کہتے تھے کہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن بحالت مجبوری انہیں یہ کٹھن اور دشوار فیصلہ کرنا پڑا۔
اسی عرصے میں حکومت نے ایک اور ’یوٹرن‘ یہ مارا کہ اپریل 2019میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے کا اعلان کیا۔ بدقسمتی سے اسی ماہ وزیر خزانہ اسد عمر کی چھٹی کردی گئی۔ اِدھر آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری تھے اور نئے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو آئی ایم ایف سے ہی ’امپورٹ‘ کیا گیا۔اسٹیٹ بینک میں آئی ایم ایف کے آفیشل رضا باقر کو گورنر لگادیا گیا اور حکومت کے 2ماہ کے عرصے میں مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف سے 6بلین ڈالرز کا معاہدہ بھی ہوگیا جو 3سال کے عرصے پر محیط ہوگا۔ اس کا بنیادی جُز یہی تھا۔
آئی ایم ایف نے پھر سے تمام سرکاری اداروں مِیں ریفارمز کی بات کی، ٹیکس ریٹ میں اضافے کی بات کی اور حکومت کو باور کرایا کہ اسے ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے اس کا ٹیکس ریٹ بڑھ سکے۔ پھر ہوا یوں کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے سربراہ شبر زیدی بنے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ محصولات کی وصولی ی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ شبر زیدی بمشکل ایک سال چل سکے اور ایک لمبی چھٹی پر چلے گئے۔ ساتھ، ساتھ چینی کا بحران اور آٹے کا بحران سامنے آیا، صورتحال یہ آگئی زرعی ملک ہونے کے باوجود حکومت کو قلت دور کرنے کے لیے آٹا اور چینی درآمد کرنا پڑا۔ مزید یہ کہ ایف آئی اے سے تحقیقات تو کراِئی گئیں مگر کچھ حکومتی شخصیات کے نام آنے کے باوجود کوئی بھی موثر کارروائی نہیں لائی گئی۔
دوسری طرف اسٹیٹ بینک نے پہلے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تدارک میں شرح سود کو 13 فیصد پر رکھا لیکن اسی دوران کورونا وبا کا بحران مشکلوں میں آسانی لے آیا۔ آِئی ایم ایف نے اپنی قسطوں کی ادائیگی میں پاکستان کو ریلیف دیا اور یہ ریلیف صرف ایک طرف سے نہیں مختلف دوست ممالک کی طرف سے بھی آیا۔ پاکستان نے اس دوران کووڈ کو روکنے کی بھر پور کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوا۔ ساتھ، ساتھ، لارج مینوفیکٹرنگ بھی 4 فیصد کے اوسط سے اچھی کارکردگی دکھانا شروع بھی کردیا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا۔ مگر رواں سال مارچ کے مہینے میں سینیٹ انتخابات میں ہار کے بعد حفیظ شیخ کو رخصت کردیا گیا۔ شوکت ترین کو واپسی پاور کو ریڈورز میں لایا گیا جو کہ نیب کے کیسز بھی بھگت رہے تھے۔ آنے کے ساتھ ہی انھوں نے ایک طرح سے ماضی کی پالیسز کو رد کیا اور کہا کہ پاکستان 6 فیصد سے کم قومی پیداوار پر چل ہی نہیں سکتا۔ اسٹیٹ بینک جو شرح سود کو 7 فیصد پر پہلے ہی لا چکی تھی تاکہ ملک میں معاشی اور تجارتی سرگرمیاں ہوں لیکن یہ سب معروضی حالات میں کیے گئے فیصلے تھے اور جب طلب اور رسد میں اضافہ واضح فرق سے آتا رہا تو مہنگائی بھی بڑھتی گئی۔ ساتھ، ساتھ مہنگے داموں میں لین دین کی خریدنے سے بھی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا۔ مگر چبھتی ہوئی بات یہ ہے کہ معاشی حالات کو جتنا فارن پالیسی نے نقصان پہنچایا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ گو کہ پاکستان میں ہوتی ہوئی تبدیلی اور طالبان کا افغانستان میں بر سر اقتدار آنا کو کبھی ’اون‘ نہیں کیا لیکن امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے ایک طرح سے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کیا ہے۔ اس کا خمیازہ یہ دیکھنے کو آیا کہ ابھی تک پاکستان کو چھٹی قسط آئی ایم سے نہیں ملی اور شاید پہلی بار آئی آیم یف پاکستان کے ڈیٹا کو ویلیڈیٹ کررہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو غلط فیصلوں کی سزا کہاں تک ملتی ہے۔ حالیہ پاکستا ن اسٹیٹس بیورو نے پاکستان کی در آمدات مِیں اشیا خورد و نوش کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے، 2020 کے مقابلے میں 37 فیصد اضافہ ایک زرعی ملک کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ ملک کے معاملات کہاں جارہے ہیں‘ اس کی عکاسی رضا باقر کے بیان سے ہوجاتی ہے، جہاں وہ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کے فوائد گنوارہے تھے۔ یاد رہے اس حکومت میں ڈالر 50 روپے سے زیادہ گر چکا ہے۔
Discussion about this post