ماضی کا رخ کریں تو سابق سوویت یونین میں یوکرین روس کا حصہ رہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں بنائی گئیں۔ بدقسمتی سے روس نے یوکرین کو بطور علیحدہ ملک تسلیم کرنے سے ہمیشہ ہچکاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی اہم وجہ روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ ہے جس کا آغاز 9 ویں صدی سے ہوا۔ کیف، روسی سلطنت کا بھی دارالحکومت تھا۔ آج یہی کیف یوکرین کا دارالحکومت ہے،درحقیقت یوکرین کے وجود کو اسی لیے روس نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
سوویت دور کے آخری عرصے میں یوکرین کی علیحدہ حیثیت کے حامیوں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ رہیں۔ دوسری جانب الگ ملک بننے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے دوستانہ مراسم شروع کیے، ادھر نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد میں شامل کیا۔ ان میں یوکرین بھی شامل تھا۔ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ بن گیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یوکرین معاشی بحران سے دوچار رہا ہے۔ جس کی داخلی سیاست میں روس کا عمل دخل زیادہ رہا، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ روسی حمایت یافتہ صدر وکٹور یانو کووچ نے 2014 میں یورپی یونین سے منسلک ہونے کا ایک معاہدہ مسترد کردیا تھا۔ جس کا مقصد ماسکو سے اپنی قربت بڑھانا تھا۔ اس فیصلے پر یوکرین میں بڑے پیمانے پر احتجاج ایسے ہوئے کہ یانو کووچ کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق روس نے اسے اپنی شکست تصور کرتے ہوئے اسی سال یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کردیا۔ جس کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں جانب پیش قدمی کی۔ ڈونباس میں روسی حمایت یافتہ علیحدی پسند گروہ فعال رہے۔ جہاں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس پر روس نے مشرقی یوکرین پر حملہ کیا۔
روس کا موقف رہا ہے کہ یوکرین نے 2015 کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ وہی معاہدہ ہے جسے روس فخریہ انداز میں اپنی کامیابی قرار دیتا رہا۔ جس کے تحت یوکرین کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا وہ علیحدی پسندوں کے زیراثر علاقوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختیاری دینے کا پابند ہوگا جبکہ کئی کو عام معافی بھی دی جائے گی۔
دوسری جانب یوکرین جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام روس پر لگاتا رہا۔ جس کا یہی کہنا تھا کہ اس کے مشرقی حصے میں روسی فوجی موجود ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد روس ، جرمنی اور فرانس کی شمولیت کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے اور اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے پر روس امریکہ اور نیٹو کو بھی آڑے ہاتھوں لے چکا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ امریکا اور نیٹو ، علیحدگی پسندوں سے طاقت کے بل بوتے پر وہ علاقے چھین رہا ہے جو انہوں نے 2014 میں حاصل کیے تھے، پیوٹن کہتے ہیں کہ مغربی ممالک سے بڑھتی ہوئی قربت کے باعث یوکرین روس کے خلاف نیٹو کے میزائلز کا لانچ پیڈ بن جائے گا۔ وہ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کے بھی شدید مخالف رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین اور دیگر پڑوسی ممالک میں انقلاب روس میں احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔
یہی وہ وجہ ہے کہ پیوٹن نے بیلا روس میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں میں حکومت کا ہی ساتھ دیا۔ بہرحال روس اور یوکرین کے درمیان کشدگی بڑھتی جارہی تھی۔ پیوٹن نے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کے کنٹرول میں دو خطوں ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد علاقے کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد وہاں فوجی دستے بھیجے ہیں ۔
حالیہ روسی حملہ دراصل ماضی کے تانے بانوں سے جڑا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق روس ہر صورت میں اپنے 9 ویں صدی کے دارالحکومت کیف اور سمیت یوکرین کے کئی تاریخی شہروں اور علاقوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
Discussion about this post