کئی بار آپ نے دیکھا ہوگا کہ مچھروں کے غول کے غول سروں پر ہی رہتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ مچھر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ سائنس کہتی ہے کہ سروں پر منڈلانے والے تمام مچھر انسانوں کو نہیں کاٹتے۔ ان میں نر اور مادہ مچھر دونوں شامل ہیں لیکن مادہ مچھر انسانی خون چوسنے کا کام کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب نر مچھر نہیں کاٹتے تو پھر سر پر کیوں منڈلاتے رہتے ہیں؟ تو اس کا سائنسی تحقیق یہ جواب دیتی ہے کہ اس کی وجہ انسانی جسم سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ مچھروں پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسان کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتا ہے۔ مچھر اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے مچھر 10 میٹر کے فاصلے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ آس پاس انسان موجود ہیں۔ انسان کے پاس پہنچتے ہی مادہ مچھر انسان کو کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔
یک تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسانی جسم کی گرمی کی وجہ سے مچھر بالوں کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔حالیہ تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ نر مچھر اپنی بھوک مٹانے کے لیے پھولوں کے رس پر بھی انحصار کرتی ہیں۔ سائنس اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق پسینہ آنا بھی مچھروں کے سروں پر منڈلانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر آپ دوڑ کر آئے ہیں، ورزش کے بعد باہر گئے ہیں اور کسی قسم کی جسمانی مشقت کی ہے تو سر پر بہت پسینہ آتا ہے اور بالوں کی وجہ سے یہ پسینہ زیادہ دیر تک رہتا ہے۔ اس پسینے میں ایک خاص قسم کا کیمیکل ہوتا ہے جسے ’ اوکٹانول‘ کہتے ہیں۔ مچھر اس کیمیکل کی طرف راغب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ سر کے اوپر منڈلانے لگتے ہیں۔
نر مچھر انسانوں کے پاس کیوں جاتے ہیں جب وہ خون نہیں پیتے؟
جرنل آف میڈیکل اینٹومولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نر مچھر انسانوں کو نہیں کاٹتے لیکن پھر بھی انسانوں کی طرف جاتے ہیں۔ مادہ مچھر انسانوں کو کاٹنے کے لیے ان کے گرد منڈلاتی ہیں ممکن ہے کہ نر مچھر مادہ کی تلاش میں ان کے پیچھے پیچھے آتے ہوں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی درست معلومات کے لیے اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
Discussion about this post