’لفظوں کا استعمال ذرا سوچ سمجھ کرنا۔‘ یہ مشورہ میری سہیلی نے دیا تویہ سمجھیں میں نے اسے پلو سے باندھ لیا۔ یہ محتاط رہنے کا مشورہ کسی استاد یا بزرگ کے سامنے نہیں، بلکہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ملا تھا۔ ابتدا میں میرا خیال تھا بھلا کس کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ کسی پوسٹ پر تلواریں نکال کر کوئی مخالفت کرے لیکن پھر رفتہ رفتہ دیگر پوسٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اِس حقیقت سے آشنا ہوئی کہ واقعی ہیں کچھ لوگ جہاں میں ایسے جو بیٹھے ہی اس کام کے لیےہیں ، جو اختلاف رائے کو دلیل کے بجائے لفظوں کی غلیل سے نشانہ بناتے ہیں۔ اور الفاظ بھی ایسےجنہیں پڑھنے کے بعد سر شرم سے جھک جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا ایک مضبوط میڈیم ہے، یہ میلوں بیٹھے شخص سے آپ کے رابطے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ کوئی الجھن کوئی پریشانی کوئی دکھ یا کوئی تکلیف سب سکینڈز میں حل ہوسکتی ہے۔ یہ درحقیقت ایک نشہ ہے، سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے افراد کی عمر میں جہاں کوئی قید نہیں وہیں سوشل سائٹس پر اپنے خیال کا اظہار کرنے پر بھی کوئی حدود مقرر نہیں آپ جو چاہے سوشل سائٹس پر لکھ سکتے ہیں یا یوں کہیے اپنے دل کی بھڑاس آزادی اظہار رائے کے نام پر نکال سکتے ہیں۔ اب ایسے میں کسی کی دل آزاری ہو یا کردار کشی، یہ بیشتر صارفین سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ ’کی پیڈ وارئیرز‘ سخت اور قابل اعتراض جملوں کے ساتھ ایسے لڑتے ہیں کہ ملال ہی ہوتا ہے کہ کیوں اظہار خیال کیا۔
سوشل میڈیا پر جائیں تو ایسے ایسے عجیب و غریب اور قابل اعتراض ہیش ٹیگ جگمگارہے ہوتے ہیں، جنہیں کسی کے سامنے بیان کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتیں۔ محبوب سیاسی لیڈر، کھلاڑی یا پھرفنکار کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ہیش ٹیگ بنائے جاتے ہیں، جو اخلاقی اقدار سے عاری ہی ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سیاسی محاذآرائی کا اکھاڑہ
جلسوں، پریس کانفرنسز اور عوامی اجتماعات میں مخالفین اور حکومتی نمائندوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ اور ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا ایک عام سی بات ہے لیکن جب یہی سیاسی جنگ سوشل میڈیا پر شروع ہوجائے تو سوشل میڈیا پر ناقابل اعتراض اور نامناسب ٹرینڈز کا سونامی آجاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ٹوئٹر پر کچھ ایسے ہی ٹرینڈز دیکھنے کو مل رہے ہیں، جنہیں پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کس کی ذہنی اختراع ہے۔ تمام حدوں کو پار کرکے کس معاشر ے اور تہذیب کی عکاسی ہورہی ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ بدقسمتی اختلاف رائے کی گنجائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔
عامیانہ اور بازاری خطابات اور القاب سے ایک دوسرے کو للکارنا اور تذلیل کرنا اب معیوب نہیں بلکہ دل کی بھڑاس نکالنے اور کردار کشی کا بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا کوئی قانون نہیں؟
گزشتہ دنوں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا رولز کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے تحت یو ٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، گوگل پلس سمیت تمام سوشل میڈیا ادارے پاکستان کے وقار اور سلامتی کے خلاف مواد ہٹانے کے پابند ہوں گے جبکہ سوشل میڈیا کمپنیز کو پاکستان قوانین اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنا ہوگی۔ کسی کی کردار کشی اور فحش کلامی کے خلاف بھی ایکشن لینے کا عزم دکھایا گیا تھا اور وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ پاکستانی صارفین کو شق 19کے تحت اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی۔
شق 19 کیا ہے؟
اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعہ عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے ساتھ ہی شق 19 کے تحت پریس کی آزادی ہے۔آئین ِ پاکستان کی شق 19 کے مطابق ہر پاکستانی کو آزادیِ اظہارِرائے کا حق حاصل ہے لیکن یہ شق کچھ حدود بھی مقرر کرتا ہے۔جس پر فی الحال عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
Discussion about this post