طالبان کی پیش قدمی سے پہلے کئی خدشات تھے کہ خواتین کے ساتھ طالبان کا کیا سلوک ہوگا، ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صنف نازک خاصا خوف و ہراس کا شکار تھیں۔ خاص کر ایسے میں جب سوشل میڈیا پر خواتین ماڈلز کی قد آور تصاویر اتارنے کی ویڈیوز وائرل ہوئیں ۔
متضاد اطلاعات یہ بھی تھیں کہ اب افغانستان میں بیوٹی پارلرز، سیلون اور دیگر تفریح مقامات بالخصوص ٹی وی چینلز پر بندش لگ سکتی ہے لیکن افغان عوام ہی نہیں دنیا کو آج خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوا جب افغانستان کے مشہور نیٹ ورک ّ” طلوع ” کے نیوز چینل پر خاتون میزبان بہشتہ ارغوند کے ساتھ انہوں نے طالبان کی میڈیا ٹیم کے قریبی رکن مولوی عبدالحق ہمد کو اسٹوڈیو میں دیکھا ۔
تاہم ابھی انہوں نے ضرور کہا کہ خواتین کو ملازمت کی اجازت ہوگی جبکہ غیر ملکی خواتین رپورٹرز سر ڈھانپ کر رپوٹنگ کرسکیں گی۔
انٹرویو میں کیا تھا ؟
طلوع نیوز چینل کی خاتون میزبان بہشتہ ارغوند اور مولوی عبدالحق ہمد نے افغانستان بالخصوص کابل کی صورت حال پر گفتگو کی ۔ جس میں طالبان رہنما نے اس جانب اشارہ کیا کہ ان کی متوقع حکومت خواتین کے خلاف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جیسا ماضی میں ہوا ہے ۔
سر پر دوپٹہ اوڑھے میزبان کو یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان کی حکومت کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کو کہا گیا ہے کہ وہ واپس کام پر آئیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، ان کے لیے عام معافی کا بھی اعلان کیا گیا ۔
طالبان کا رویہ خواتین کے معاملے میں نرم ہوگیا ؟
اس انٹرویو سے تو یہی تاثر ملا کہ طالبان نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور وہ خواتین کے لیے ایک حد میں رہ کر کوئی گائیڈ لائن طے کرچکے ہیں ۔
اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ” طلوع ” چینل کی رپورٹر حسیبہ عطاکپل کابل کی سڑکوں پر نظرآئیں ۔جو بلا خوف و خطر شہر کی تازہ ترین صورت حال سے ناظرین کو باخبر رکھ رہی تھیں ، یہ اس جانب بھی اشارہ ہے کہ طالبان کو خواتین کے سماجی اور فلاحی کاموں پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ جبھی حسیبہ ہوں یا بہشتہ ارغوند آزادنہ اپنے پیشہ ورانہ کام کو انجام دے رہی ہیں ۔
ویدیو – گزارش حسیبه اتکپال خبرنگار طلوع نیوز از کابل pic.twitter.com/zVv3zL9nFq
— TOLOnews (@TOLOnews) August 17, 2021
Discussion about this post