اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملکی سیاست کسی ڈرامائی فلم یا پاک بھارت میچ کی طرح ہوگئی ہے ، جس کے ہر موڑ پر نئے ٹوئسٹ آرہے ہیں۔ سپنس بڑھ گیا ۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی کہ نہیں۔ کیونکہ اپوزیشن الگ دعوے کررہی ہے تو وفاقی وزرا الگ۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ آخری بال تک مقابلہ کریں گے۔ اتحادیوں میں سے دو تو فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ اپنا پلڑا کس کی طرف جھکائیں گے۔
چوہدری پرویز الہی نئے وزیراعلی پنجاب
اس کہانی میں پیر کی شام اس وقت ڈرامائی موڑ آیا جب ق لیگ نے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کے بعد حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تو بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اور یہ سب کچھ ایسے میں ہوا جب ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوچکی تھی ۔ جہاں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 161 رہی۔
وفاقی وزیر زبیدہ جلال کی عدم موجودگی
گورنمنٹ اور کمبائن اپوزیشن کے ووٹوں کا جائزہ لیں تو اس میں معمولی سا ہی فرق نظرآتا ہے ۔ تو سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کی تو تحریک انصاف ایوان میں اسے آج تک 172 ارکان کی حمایت رکھتی ہے۔ ان میں خود پی ٹی ائی کی 155 ہیں ۔ ق لیگ کی 4، بلوچستان عوامی پارٹی کی 1، یہ وہ نشست ہے جو زبیدہ جلال کی ہے۔ جنہوں نے پیر کو اپوزیشن کی پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔
جبھی کہا جارہا ہے کہ ان کا ووٹ حکومت کے ساتھ ہے۔ جی ڈی اے کی 3، عوامی مسلم لیگ یعنی شیخ رشید کی 1 ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی 7 اور دیگر ایک ملا کر یہ تعداد 172 بنتی ہے۔
حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی تعداد
دوسری جانب متحدہ اپوزیشن میں ن لیگ کی 84 ۔ پیپلز پارٹی کی 56 ، متحدہ مجلس عمل کی 14 ، بلوچستان عوامی پارٹی کی 4 ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی بھی 4 ، جمہوری وطن پارٹی کی 1 ، ق لیگ کی 1 ، یہ وہ نشست جو ق لیگ کے ناراض رہنما اور کل ہی وزارت سے مستعفی ہونے والے طارق بشیر چیمہ کی ہے۔ جنہون نے اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیں گے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی ایک اور دیگر 2 مل کر یہ تعداد 169 بنتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پی ٹی آئی کے 14 منحرف ارکان کی حمایت حکومت کو نہیں ملی تو اس کے ووٹ 151 رہ جائیں گے یہ وہی ارکان ہیں جن کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیے گئے ہیں اورپارٹی قیادت کے خلاف ووٹ دینے پر حکومت نے آئین کی شق 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے ۔ اور اگر ان منحرف ارکان نے اپوزیشن کو ووٹ دے دیے تو موجودہ صورتحال میں جب متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد جیسا ہم نے بتایا کہ 169 ہے تو وہ بڑھ کر 183 ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹ گیم چینجر
اب یہاں بڑا دلچسپ سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے فی الحال یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس کی حمایت کریں گے۔ ان کی مشاورت جاری ہے۔ اب اگر تصور کریں کہ ایم کیو ایم پاکستان اپوزیشن کی حمایت کردے تو ان کے ووٹ کی تعداد 169 سے بڑھ کر 176 ہوجائے گی اور حکومت کے ووٹ 165 ہوجائیں گے۔ ایسی صورتحال میں کمبائن اپوزیشن کو منحرف ارکان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے ایک سو بہتر ارکان کی ضرورت ہے۔ یعنی اب ایم کیو ایم پاکستان کے سات ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ان 7 ووٹ کو حاصل کرنے لیے جہاں حکومت ایم کیو ایک پاکستان کو راضی کررہی ہے وہیں متحدہ اپوزیشن بھی ۔ بہرحال پیر تک کے لیےپاکستانی سیاست کے لیے بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ جس میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کا پتا لگ جائے گا۔
Discussion about this post