شاداب خان کو اُس وقت غصہ تو آیا تھا، جب 18ویں اوور کی آخری گیند پر ایک یقینی رن نہ لینے سے آصف علی نے کریز سے نکلنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ یہ اِس جانب اشارہ تھا کہ اُنہیں کس قدر اعتماد تھا کہ وہ اگلے 2اوورز میں مطلوبہ 24رنز بڑے مزے سے بنالیں گے اور پھرکریم جنت نے اوور کرانا شروع کیا تو وہ اپنی ٹیم کے لیے حسن علی ہی بن گئے۔ جن کی ایک اوور میں ہی آصف علی نے آسمان کو تارہ بناتے ہوئے 4 چھکے مار کر بتادیا کہ یہی وہ اعتماد اور یقین تھا، جس کی بنا پر وہ انہوں نے شاداب خان کی کال پر رن نہیں لیا تھا۔ مین آف دی میچ آصف علی نے صرف7گیندوں پر دھواں دھار 25رنز بنائے۔ یعنی ان میں صرف ایک رن ہی انہوں نے بھاگ کر لیا۔ گزشتہ 2میچوں میں وہ صرف19گیندوں پر 7چھکے مار چکے ہیں اور اِ س وقت وہ پاکستان کی جانب سے ’میچ فنشر‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میچ کا ایک اوور ابھی باقی ہے۔
افغانستان کرکٹ ٹیم نے دیکھا جائے تو ایک بار پھر اپنی گرفت میچ میں مضبوط کرلی تھی۔ بالخصوص 76رنز پر 6کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد میدان میں اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے کسی بھی پرستار کو امید نہیں تھی کہ افغان ٹیم 100بھی کرپائے گی لیکن داد دینی چاہیے محمد نبی اور گلبدین نائب کو جن کی رنز بنانے کی رفتار ابتدا میں تو سست رہی لیکن پھر دونوں نے ایسا ہاتھ کھولا کہ 147رنز اسکور بورڈ پر سجا دیے۔
یہ ہدف افغان اسپن اٹیک کے سامنے خاصا بڑا ہی تصور کیا جارہا تھا۔راشد خان، محمد نبی اور مجیب الرحمان کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں تھا۔ یہاں داد دینی چاہیے بابر اعظم اور فخر زماں کو جنہوں نے محمد رضوان کے بعد ابتدائی اوورز میں افغان اسپنرز کو وکٹ لینے کا موقع نہیں دیا۔ کپتان بابر اعظم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دوسری نصف سنچری بنائی لیکن وہ اُس وقت آؤٹ ہوئے، جب اُنہیں یہ معلوم تھا کہ راشد خان کے اسپیل کی یہ آخری گیند تھی۔ بابر ایک غیر ضروری شارٹ کھیلتے ہوئے اپنی وکٹ گنوادیے بیٹھے۔
بہرحال پاکستان نے یہ میچ 5وکٹوں سے جیت کر ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔ دوسری جانب افغان کرکٹ ٹیم کی یہ پرفارمنس دوسری ٹیموں بالخصوص بھارت اور نیوزی لینڈ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہی ہے۔ کیونکہ آج اُس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اُس کے پاس بیٹنگ کی بھرپور صلاحیتیں ہیں، وہیں بالنگ بھی لیکن آج کی افغان کرکٹ ٹیم کی شکست میں کپتان محمد نبی کی کچھ قیادت کا بھی عمل دخل رہا۔ بالخصوص انہوں نے اپنے میچ ونر بالر راشد خان کو بہت دیر میں بالنگ کے لیے طلب کیا۔ اگر راشد خان ابتدائی 10اوورز میں سے ایک کراتے تو ممکن ہے کہ پاکستان پر دباؤ پڑتا۔اسی طرح انہوں نے مجیب الرحمان کے اوورز کا کوٹہ پہلے ہی مکمل کرالیا جبھی آخری اوورز میں اُن کے پاس فاسٹ بالنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ جس کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
جیت کے اس جشن میں 2نکات ایسے ہیں، جن پر پاکستانی ٹیم کو یقینی طور پر توجہ دینی ہے۔ ایک حسن علی کی مسلسل تیسرے میچ میں ناقص بالنگ، وہ اب تک ان میچوں میں 108رنز دے چکے ہیں۔اگر آج اُن کے اُس اوور میں 21رنز نہیں بنتے تو افغان کرکٹ ٹیم بمشکل 120رنز تک ہی پہنچ پاتی۔ پھر اسی طرح اُنہیں اپنی ’نو بال‘ پر کوئی قابو نہیں۔ جو ’فری ہٹ‘ بن کر ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ بہتر نہ ہو کہ اُن کے اگلے میچ میں آرام دے کر شاہنواز دھانی کو موقع دیا جائے۔ اسی طرح محمد حفیظ کی مسلسل خراب کارکردگی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ گزشتہ اور آج کے میچ میں وہ اپنی وکٹ ایسے وقت میں غیر ضروری شارٹ کھیل کر مخالف ٹیموں کو دے گئے، جب اُن کی وکٹ پر موجودگی بہت ضروری تھی۔ پاکستان کے لیے اب اگلے 2میچ نسبتاً آسان ٹیموں سے ہیں لیکن یقینی طور پر قومی ٹیم کاسیمی فائنل میں مقابلہ انگلینڈ یا پھر آسٹریلیا سے ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی مڈل آرڈر کی اوسط درجے کی کارکردگی کو اور بہتر کرنا ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر میچ آصف علی ہی آکر جیتائیں۔ مڈل آرڈر بالخصوص سنیئر بلے بازوں کے لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں۔
Discussion about this post