ایمازون پاکستان میں اپنے کاروبار کی شروعات اگلے سال عید کے بعد سے کرنے جا رہا ہے یعنی عید کے بعد ایمازون ڈاٹ کام پر آن لائن خریدی ہوئی اشیا پاکستانی ایڈریس پر پاکستان پوسٹ کے زریعے وصول کی جاسکیں گی۔ پاکستان میں مختلف مقامات پر ایمازون کے گودام بنانے کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو ایمازون سے اشیا خریدنے کے بجائے اس ویب سائٹ کے زریعے اپنی تیار کردہ مصنوعات دنیا بھر میں کسٹمرز تک پہنچانے کا خواہاں ہے۔ آن لائن کام کرنے والے بہت سے لوگ آجکل اس جستجو میں رہتے ہیں کہ ایمازون ڈاٹ کام پر موجود کاروباری موقعوں سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی گرم ہے کہ ایمازون سیلر لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی کاروباری طبقہ اپنا مال کس طرح یورپی اور امریکی منڈیوں میں فروخت کر کے زر مبادلہ کما سکتا ہے۔۔ ڈیجیٹل دنیا میں ایمازون ایک جنگل کے جیسا ہے، اس پر ایک پورا جہان آباد ہے اور اس کے ایک ایک حصے پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
صارفین یہاں پر ضروریاتِ زندگی کی چیزیں فروخت کرتے ہیں، وہ کسی بڑے دکاندار سے مال خریدتے ہیں اور اس پر اپنا کمیشن رکھ کر صارفین کو فروخت کر دیتے ہیں۔پاکستان 2013 تک ایمازون سیلر لسٹ میں شامل تھا۔ یعنی 8 سال قبل پاکستانی کاروبار اس فہرست میں اپنا نام درج کرا سکتے تھے لیکن بد قسمتی سے چند ایسے عناصر سامنے آئے جنھوں نے ایمازون کے اس نظام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی اور ان جیسی مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستانی کمپنیز پر اعتماد میں کمی آتی گئی اور دیگر حالات کی بنا پر پاکستان کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا۔ البتہ چند ہفتے قبل وزیرِ اعظم کے مشیر برائے کامرس اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے آگاہ کیا کہ ایمازون نے پاکستان کو دوبارہ اپنی سیلرز لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔ صارفین جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہ سیلرز لسٹ ہے کیا، پاکستان اس فہرست میں پہلے کیوں نہیں تھا اور اب فہرست میں شامل ہونے کے بعد پاکستانیوں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟
پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
تین دہائیوں سے چلی آنے والی کمپنی ایمازون اربوں ڈالر کا کاروبار کرتی ہے، اس ویب سائٹ پر دنیا بھر سے ہر قسم کے سامان کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، 2020 میں ایمازون نے 386 ارب ڈالر کمائے جو کہ 2019 کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ تھا۔اسی خرید و فروخت کے لیے کمپنی میں ‘سیلرز لسٹ’ کا استعمال ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے کم از کم 104 ممالک شامل ہیں، ان ممالک کے شہری اور کاروباری افراد ایمازون کی ویب سائٹ پر اپنی مصنوعات فروخت کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ بہت سے کاروباری جو اپنا سامان پاکستان ہی میں تیار کرتے ہیں انکی خواہش تھی کہ وہ بھی اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ایمازون پر اپنی مصنوعات فروخت کے لیے رکھ سکیں لیکن ان کے لیے خود ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
وجہ ؟؟ ایمازون لسٹ میں پاکستان کا نام ہی نہیں تھا۔ یوں اس کام کے لئے بہت سے کاروباری افراد اپنا پاکستانی پتا درج کرنے کے بجائے تھرڈ پارٹی ذرائع کی مدد سے ایمازون پر اپنی مصنوعات کو فروخت کے لیے رکھ رہے تھے اور اس میں ان کے امریکا میں مقیم رشتہ دار یا دوست اپنے پاسپورٹس، بینک اکاونٹس اور پوسٹل ایڈریسس درج کر کے یہ کام ممکن بناتے رہے تھے، مگر یہ نا صرف کافی محنت طلب کام تھا بلکہ اس کے لیے خاصا وقت بھی درکار تھا۔ اسکے مقابلے میں بھارت کی مثال لیں تو ایمازون پر لسٹڈ ہونے کی وجہ سے بھارت میں 70 ہزار سے زیادہ چھوٹے کاروبار ایمازون پر رجسٹرڈ ہیں جنھوں نے گذشتہ برس ایمازون پر اپنی مصنوعات کی فروخت کی مدد سے دو ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی مجموعی برآمد 20 سے 22 ارب ڈالر مالیت کی ہے۔ اس میں اگر آپ تصور کریں کہ 2 ارب ڈالر کی آمدنی مزید آ جائے تو یہ کل آمدنی کا 10 فیصد بن سکتی ہے۔ یعنی ایمازون پر جانے کا مطلب ہے کہ پاکستان کاروباری حضرات کو ممکنہ طور پر 30 کروڑ صارفین کے سامنے اپنی مصنوعات رکھ رہے ہیں اور پوری دنیا کی مارکیٹ تک کی رسائی ممکن ہو جائے گی۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں برآمدات بی ٹو بی، یعنی کاروبار سے کاروبار کرنے والوں کے درمیان ہوتی تھی لیکن ایمازون پر بی ٹو سی، یعنی کاروبار سے صارف کے درمیان سودا ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ خام مال نہیں بلکہ تیار شدہ چیز بیچتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنا سامان ایمازون پر بیچنا چاہتا ہو تو اسے اپنی پروڈکٹ کے لیے پیکنگ کا بھی سوچنا ہوگا، معیار کو بھی برقرار رکھنا ہوگا، اس کو پرکشش بنانا ہوگا، نمائشی تصویر اچھی لگانی ہوگی، اور بھیجنا بھی ایسے ہوگا کہ وہ صارف تک پہنچتے پہنچتے خراب نہ ہو جائے۔
پاکستان صارفین کو اب کیا کرنا ہوگا؟
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایمازون بزنس پورٹل استعمال کرنے والوں کی تربیت کی جائے اور انھیں ان صلاحیتوں سے متعارف کرایا جائے، جسے استعمال کر کے لوگ سیلرز لسٹ میں خود کو درج کرا کر اپنی مصنوعات کی اچھے سے تشہیر کر سکیں اور انھیں بیرون ملک بھیج سکیں۔ آپ کو اس چیز پر عبور حاصل کرنا ہے کہ اپنی پروڈکٹ کو ٹاپ رینک پر کیسے لانا ہے ، مثلاً کوئی شخص ایمازون پر کوئی چیز خریدنے کیلئے سرچ کرتا ہے تو اسے ٹاپ پر آپ کی چیز نظر آنی چاہیے ، اگر آپ یہ اسکلز سیکھ لیتے ہیں تو آپ ایک کلائنٹ سے آسانی کے ساتھ تین چار سو ڈالرز کما سکتے ہیں ، آپ ہفتے میں 3 کلائنٹ حاصل کر کے قریب ایک ہزار ڈالرز یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کما سکتے ہیں ۔
حکومت کے کیا اقدامات ہیں؟
حکومتِ پاکستان مختلف اداروں سے مل کر اس حوالے سے مختلف اقدامات کررہی ہے ۔ البتہ کاروباری افراد کے لیے سب سے بڑا چیلنج فروخت کی گئی مصنوعات کے عوض رقم شفاف طریقے سے حاصل کرنا ہے۔ کاروبار کرنے والے افراد کو سامان کی بیرون ملک ترسیل کرنے اور آمدنی اور ای کامرس پر لگنے والے مزید ٹیکسز کی مد میں کافی خدشات ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ اگر حکومت نے اس کام کی ابتدا ہی میں ٹیکسزلگادیےتو گاڑی آگے بڑھانا مشکل ہوجائی گی۔
اسی طرح پاکستان سے سامان کورئیر کی مدد سے بھیجا جاتا ہے جو کافی مہنگا پڑتا ہے۔ حالانکہ پاکستان پوسٹ جیسی سہولیت میسر ہے جس پر اگر کام کیا جائے تو ترسیل کا نظام بہت بہتر ہو سکتا ہے۔ چین نے بھی اسی طرح اپنے سرکاری محکمہ چائنا پوسٹ پر کام کیا اور اب وہ بہت ہی قلیل رقم کے عوض سامان چین سے امریکہ بھیجتے ہیں۔ابتدا میں منصوبہ بھی یہی ہے کہ ایک ایک چیز پاکستان سے براہ راست خریدار تک پہنچنے کے بجائے پاکستان سے اکھٹا سامان ایمیزون کے 175 میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ ویئرہاؤسز میں جائے گا جہاں سے خریداروں کو ایمیزون براہ راست ڈیلیور کرے گا۔
پاکستانی کمپنز کو کیا کرنا ہے؟
پاکستانی کمپنیوں کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا ہوگا پھر جو چیز بیچنا چاہتے ہیں اس کی ایمیزون کی اپنی شرائط ہیں ان کو پورا کرنا ہو گا کہ مثلا کوئی ایسی چیز جس کو جلد پر استعمال کرنا ہے، یا کھانے کی چیز ہے تو اس کے معیار کے حوالے سے خاص سرٹیفیکیشن وغیرہ مانگی جائے گی تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ہے۔ پاکستان میں تاثر قائم ہو چکا ہے کہ انٹرنیٹ پر سامان ڈال دیں گے اور وہ فوراً فروخت ہو جائے گا اور مہینوں میں دولت آ جائے گئی، مگر ایسا نہیں ہے۔ ایمازون پر بھی کاروبار میں نقصان ہو سکتا ہے اس لیے کاروبار کرنے سے پہلے کسی نہ کسی طریقے سے تجربہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
ایمازون خود بھی اپنے پلیٹ فارم پر کاروبار کرنے کے طریقہ کار کو سکھاتا ہے اور اس کے لیے کورسز فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے ناصرف ایمازون پر کاروبار کرنے کے گُر سیکھے جا سکتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ایمازون پر کاروبار کرنے والوں کو مختلف سروسز فراہم کرنے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان یعنی ٹی ڈی اے پی اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایس ایم ای ڈی اے) اس حوالے سے ایمازون پر کاروبار کرنے کے کورسز کروا رہے ہیں۔
ایمازون کس پہلو کو اہمیت دیتا ہے؟
ایمازون کے لیے فروخت کرنے والوں کے بجائے گاہکوں کو ہر لحاظ سے فوقیت دیتا ہے۔مثال کے طور پر ایک فروخت ہونے والے آئٹم پر خریدنے والے کاہگ نے اپنے ریویو میں غلط یا کم معیار کا آئیٹم فروخت کرنے کا کہہ دیا تو ایمازون فروخت کرنے والے کو بلاک کردے گا۔ اس کی ریٹنگ کم کر دے گا۔ یعنی کاروبار ہی ختم ہوگیا۔اوسط کاروباری صلاحیت اور بیٹھ کر کاہگ کا انتظار کرنے والوں کے لیے ایمازون پر کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ ایمازون یا ای کامرس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کے لیے سمجھ دار اور بہترین کاروباری سوجھ بوجھ والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہےلیکن اگر آپ اس کام میں نئے ہیں تو محنت کیجئے ۔۔ وقت لگائیے، سچی لگن سے آپ بھی اپنے آپ کو ایمازون کے بڑے کلائنٹس میں شامل کرسکتے ہیں۔
Discussion about this post