مقبوضہ کشمیر جہاں بھارتی قابض فوج موجود ہے، جسے شق 370کے خاتمے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن انتہا پسند مودی سرکار جبر اور ظلم کے کچھ اور نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق 1990سے اب تک 506مجسٹریٹ لیول پر مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر اس درندگی کے خلاف تحقیقات ہوچکی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اب تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں آسکا، جس کے ذریعے کشمیریوں کو امید ہو کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے۔ کئی تحقیقات میں اس جانب بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں موجود بھارتی سیکورٹی اہلکاروں اور اُن کے محکموں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ بدقسمتی سے مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے بھارتی اہلکارکو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
گزشتہ برس جولائی میں 3کشمیری بے قصور اور نہتے نوجوان امتیاز احمد، ابرار احمد خان اور ابرا ر یوسف کو بھارتی قابض فوج نے دہشت گرد قرار دے کر شہید کردیا تھا۔ ا س واقعے کی تحقیقات پر یہ بات سامنے آئی کہ یہ ماورائے قتل کی واردات تھی۔ تینوں نوجوانوں کو کرائے کے مکان سے اغوا کیا گیا، گاڑی میں بٹھا کر شوپیاں لے جایا گیا اور پھر ان کی جان لے لی گئی۔ یہ تینوں نوجوان روزگار کی تلاش میں تھے لیکن بھارتی فوج نے انہیں زندگی بھر کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ایسے ہزار وں واقعات ہیں، جن میں بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بے قصور نوجوانوں کے قاتل اہلکار آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں تاجر الطاف حسین بھٹ اور مدثر گل کو بھارتی فورسز نے پہلے اغوا کیا اور پھر اِن کی بھی جان لے لی۔ تحقیقات میں یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ ایک ڈینٹل سرجن تھا تو دوسرا رئیل اسٹیٹ ڈیلر لیکن بھارتی فوج اور میڈیا نے یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ یہ دہشت گرد تھے۔ بھارتی رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کے فوجی مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور کشمیریوں کی زندگی سے آئے دن کھیل رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
Discussion about this post