یوں تو بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر اس صوبے کی سیاست میں ہونے والی ہلچل ہمیشہ سے ہی عوام کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی رہی ہے۔ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اور حکمران جماعت کے باغی گروپ کی مخالفت کے باعث جام کمال کو وزارت اعلی کی نشست سے استعفی دینا پڑا۔ جام کمال کی جگہ باغی گروپ کے قائد عبدالقدوس بزنجو بلا مقابلہ بلوچستان کے وزیراعلی منتخب ہو گئے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی 65 جبکہ قومی اسمبلی کی 16 سیٹیں ہیں۔ ن لیگ کی گزشتہ حکومت کے آخری ایام میں اسے بلوچستان سے ایک بڑا جھٹکا ملا جب ثنا اللہ زہری کو وزارت اعلی کی نشست سے مستعفی ہونا پڑا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلی کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے۔
عبدالقدوس بزنجو گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کی سیاست میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ ایک نوجوان سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز بلدیاتی الیکشن سے مشرف دور سے کیا تھا. لیکن حیران کن طور پر 2002 کے عام انتخابات میں سیاسی منظر نامے پر ابھرے اور بلوچستان اسمبلی میں سے سے نوجوان رکن کے طور پر سب کے سامنے آگئے۔ یہ ہی نہیں بلکہ عبدالقدوس بزنجو اس وقت کے وزیراعلی جام محمد یوسف کی کابینہ میں بھی شامل ہو گئے اور وزیر امور لائیو سٹاک بنے تھے۔ اس کے بعد 2008 کے انتخابات میں انہیں شکست ہوئی لیکن اس شکست کے بعد 2013 میں جب وہ رکن اسمبلی بلوچستان منتخب ہوئے اور پھر اس کے بعد وہ دور شروع ہوا کہ عبدالقدوس بزنجو قومی سیاست کے منظر نامے پر اپنی جوان شکل و صورت کی چمک دمک کے ساتھ نمایاں ہوتے ہوئے دکھائی دیے۔
عبدالقدوس بزنجو مسلم لیگ ق کا حصہ تھے مگر ق لیگ کو خیر باد کہنے کے بعد ابھی وہ بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ ہیں۔ 2013 کا الیکشن جیتنے کے بعد عبدالقدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مقرر ہوئے تھے لیکن 2015 میں اس وقت کے بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر جان جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے سپیکر کی کرسی سنبھالی، مگر جلد ہی عبدالقدوس بزنجو کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اس کی روشنی نے انہیں وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھا دیا۔
سنہ 2018 میں قومی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل بلوچستان کی سیاست میں ہلچل ہوئی اور عبدالقدوس بزنجو کی سربراہی میں اسمبلی کے ایک گروپ نے ثنااللہ زہری سے متعلق عدم اعتماد کی تحریک بلوچستان اسمبلی میں جمع کروا دی تھی۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ثنااللہ زہری نے استعفی دے دیا اور عبدالقدوس بلوچستان کے نئے وزیر اعلی منتخب ہو گئے۔
سنہ 2018 کے الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ جام کمال بلوچستان اسمبلی سے وزیراعلی منتخب ہوئے لیکن رواں ماہ کے آغاز میں ہی ان کی پارٹی کے اراکین نے ان کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے تھے۔ جس کا نتیجہ 21 اکتوبر کو جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نکلا۔ جام کمال کی عدم اعتماد کی درخواست پر 33 اراکین اسمبلی کے دستخط موجود تھے لیکن حسب روایت جام کمال بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔ ان کے استعفی کے بعد بلوپچستان عوامی پارٹی نے جام کمال کے خلاف بغاوت کے سربراہ عبدالقدوس بزنجو کو نیا وزیراعلی منتخب کر لیا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو بلا مقابلہ بلوچستان کے 18 ویں وزیراعلی منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں اسمبلی سے وزارت اعلی کی کرسی سنبھالنے کے لیے 35 ووٹ ملے ہیں۔
Discussion about this post