انفارمیشن کا ایک طوفان ہے ، جو کر ہر سکینڈز پر کبھی نیوز چینل تو کبھی آپ کے اسمارٹ فون پر جھلما اٹھتا ہے ۔ بڑے تو بڑے بچے بھی اب ’ اپ ٹو ڈیٹ ‘ رہتے ہیں لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کچھ غلط ، بے بنیاد ، مبالغہ آرائی اور فرضی جھوٹی معلومات بھی آپ تک پہنچتی ہے ، جسے بنا سوچے سمجھے ایک دوسرے تک آگے بڑھانے کا رحجان عام ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں3اہم امور کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے ، سب سے پہلے کس نے یہ بنائی ، اس کا ذرائع کیا ہے ؟ یہ کہاں سے آئی ؟ حالیہ دنوں میں کورونا وبا کے دوران کئی من گھڑت تحقیق اور مفروضات پر مبنی موادہماری نگاہوں سے گزرا ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جو مواد ہم بغیر سوچے سمجھے شیئر کرتے ہیں وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتے ہیں ۔ اسی لیے شیئر سے پہلے خوب چھان بین کرلیں کہ جو ’ فارورڈ ‘ کررہے ہیں ، اس کی حقیقت آخرکیا ہے ۔
بچوں کو کس طرح غلط مواد سے محفوظ رکھا جائے ؟
بہتر یہ ہوگا کہ اپنے بچوں سے ان غلط معلومات کے بارے میں بات کی جائے جو عام طور پر آن لائن ہوتی ہیں۔ بچوں کے پاس ہمیشہ فیصلہ یا تنقیدی سوچ کی مہارت نہیں ہوتی کہ وہ کیا پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں ، لیکن وہ ان صلاحیتوں کو تیزی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جن کی آپ وضاحت کریں کہ جو کچھ وہ آن لائن دیکھتے ہیں ، ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ حقیقت پر مبنی ہو
وضاحت کا پہلو نمایاں رکھیں
کوشش کریں کہ بچوں کو ابتدا سے ہی اس بات کا علم ہو کہ غلط معلومات ہوتی ہے کیا ؟ ۔ ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے وقت نکالیں ، انہیں اس بات کا شعور دیں کہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر کچھ مواد غلط بیانی پر مبنی ہوتا ہے ۔ اُن فرضی قصے کہانیوں کی حقیقت کو بیان کریں ، جو بچے کے ذہن میںابہام لاتا ہے ۔ کچھ مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انٹر نیٹ کی دنیا میں بہت سی مبہم معلومات ہیں اور آپ کے بچوں کو واقعی سمجھنے سے پہلے تھوڑی اضافی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
غلط معلومات کے لیے چھوٹے مواقع کی تلاش
مختلف ٹی وی چینلز کی رپورٹس اور اخباری تراشے آپ کے معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط معلومات کے بارے میں مدد گار گفتگو کے لیے چھوٹے چھوٹے مواقع بھی خاصے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٹی وی شو یا اخباری مضمون کا سہارا لے کر آپ اس پر گفتگو کرسکتے ہیں۔ مثلاً، اگر آپ کا بچہ کسی ایسے مضمون کا مطالعہ کرسکتا ہے ، جو افسانوی پیرائے میں ہو ، جیسے یورپ میں یہ قصہ مشہور ہے کہ وہاں بھوری گائیں چاکلیٹ کا دود ھ دیتی ہیں، تو آپ بچے کو سمجھائیں کہ یہ مضمون غلط معلومات پھیلا رہا ہے اور تمام گائیں ایک ہی قسم کا دودھ دیتی ہیں۔ اسی طرح اپنے بچے سے یہ معلوم کریں کہ اس کا ہم جماعت کون کون سی مضحکہ خیز باتیں کرتا ہے اور پھر درست معلومات اور تحقیق کے سہارے اسے غلط ثابت کریں۔ اس طرح بچے کو یہ سمجھنے میں جہاں مدد ملے گی کہ غلط کیا ہے ، وہیں اس کے اندر از خود تحقیق کی عادت پروان چڑھے گی۔ بچوں کو کسی آن لائن مضمون کو احتیاط سے پڑھنے کا بھی کہہ سکتے ہیں ، جس کے بعد وہ خود سے تحقیق کرے اور اپنی ذہنی استعداد کے مطابق چیزوں کو سمجھ سکے۔
بچوں کے سوال پر خوش ہوں
بعض بچے سوال کرنے سے کتراتے ہیں ، بالخصوص ان کے ذہن کے کسی خانے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں اوٹ پٹانگ سوال پر مذاق کا نشانہ نہ بنیں، اسی لیے ان کے سوالات پر خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ غلط معلومات آپ کے بچوں کے بارے میں سوچنے کے لیے واقعی پریشان کن اور دباؤ کا باعث بن سکتی ہیں۔ انہیں بتائیں کہ اگر آپ الجھن محسوس کر رہے ہیں تو آپ ان کے سوالات سننے اور جواب دینے کے لیے ہمیشہ دستیاب ہیں۔ اپنے بچوں کو یقین دلائیں کہ یہ کوئی احمقانہ سوالات نہیں ہیں اور یہ کہ آپ ہمیشہ ان کو سمجھانے کیلئے ان لے لیول پر آکر بات کریں اور بچوں کو بتائیں کہ ’ ہو سکتا پہے کہ آپ نے کچھ الٹی سیدھی اور عجیب و غریب باتیں سنیں اور دیکھی ہوں، تو اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اگر آپ کے دماغ میں کوئی سوالات ہوں تو اس پر بات کرنی کریں۔
آن لائن گیمز بچوں کی اصلاح کا سبب
، بیڈ نیوز، فیک نیوز ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن گیمز کے ذریعے بچے حقائق کی جانچ پڑتال میں مہارت پیدا کرسکتے ہیں ۔ اسی لیے انہیں نیوز فیڈ ڈیفینڈر،
اور آئی رپورٹ جیسے گیمز کھیلنے کی عادت ڈالیں۔ جو بچوں کو غلط معلومات کے ذریعے ترتیب دینے کا طریقہ سکھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ یہ کھیل کیوں مفید ہیں ، اور وہ ان مہارتوں کو حقیقی زندگی میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔
ویب سائٹس کا سہارا
ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہناہے کہ بچوں کو عجیب و غریب نظر آنے والے ’ یو آرایل ‘ کی تلاش میں لگائیں ۔جیسے ".co” کے ساتھ ختم ہونے والی ویب سائٹس۔ ان سے کہو کہ وہ ہیڈنگ پرغو ر کریں اگر اس میں بہت سی غلطیاں ہیں ، یا اگر یہ تمام بڑے حروف میں لکھی گئی ہے تو ، یہ اس جانب اشارہ ہے کہ معلومات میں کہیں نہ کہیں کچھ غلطی ہے ۔ بچوں کو گوگل ، ویکی پیڈیا اور اسٹوپس جیسی سائٹس سے متعارف کرائیں تاکہ وہ کسی بھی خبر کی اصل حقیقت جاننے کے لیے ان کی مدد لیں۔ مثال کے طور پر ، اگر آپ کے بچے کو کوئی عجیب خبر آرٹیکل آن لائن مل جائے تو وہ اسے گوگل کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ تلاش کے نتائج درست ہے یاغلط ۔
بچوں کو صبر تحمل کی تلقین
اگر آپ کا بچہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ہم جماعت اسے غلط معلومات سوشل میڈیا پر دے رہا ہے، تو اسے اس بات کی تلقین کریں کہ وہ اپنی تحقیق کے ذریعے اسے غلط ثابت کرے ۔ لیکن اس سارے عمل میں شائستگی کا پہلو نمایاں رہے تاکہ مخاطب اسے بدتمیزی کے زمرے میں نہ لائے۔ بچہ مستند مضمون یا ویب سائٹ سے لنک کاپی کرکے متعلقہ دوست تک پہنچا سکتا ہے، جو اس کے دعویٰ کی نفی کررہا ہو۔ بچوں کے اندر جب آپ تحقیق کی عادت ڈالیں گے تو یاد رکھیں کہ وہ ہر موصول ہونے والی خبر یا تصویر کی از خود تحقیق کرنے میں پہل کریں گے۔
Discussion about this post