ہر خاتون کے لیے زیوارت قیمتی اثاثہ تصور کیے جاتے ہیں۔ جس کے فروخت کا خیال صر ف اُسی صورت میں آتا ہے، جب سر پر کوئی مصیبت یا پریشانی آپڑی ہو لیکن ان دنوں بیشتر بھارتی خواتین، اسی سہاگ کی نشانی کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ممبئی کے صرافہ بازار میں کئی ایسی خواتین ملیں گی جو شادی کی چوڑیاں یا پھر دوسرے زیوارات کو اونے پونے دام بیچتے ہوئے نظر آئیں گی۔ انہی میں ایک کویتا بھی ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔ کویتا کے مطابق اُس کے گارمنٹس کا کاروبار ڈیڑہ سال سے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ دکان کا کرایہ اور ملازمین کی تن خواہیں ادا کرنا مشکل ہوگیا، اسی لیے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اب شادی کی یہ یادگار نشانیاں فروخت کرکے ہی قرض اور تن خواہیں ادا کروں۔انہی صرافہ بازاروں میں سے ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ اُس کا خاندان ایک صدی سے سونے کی خریدو فروخت سے منسلک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اُس نے ایسے افراد کو نہیں دیکھا، جو اپنا قیمتی اثاثہ بیچ رہے ہو۔زیادہ تر گاہکوں میں خواتین ہیں جو سونے کی چوڑیاں، انگوٹھی، ہار اور بالیاں فروخت کرنے کے لیے بازار کا رخ کرتی ہیں۔ دکاندار کے مطابق تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ کچھ خواتین سب سے اہم اور قیمتی ’منگل سوتر‘ تک بیچنے پر مجبور ہیں۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں سونے کی ثقافتی اور مالی اہمیت تصور کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر اسے زیب تن کرکے اپنی امارات اور شان و شوکت کا اظہار عام سی بات ہے۔ بیشتر خواتین یہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ایک محفوظ اثاثہ ہے۔جسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرکے روایت کے ساتھ ساتھ زیورات کی افادیت کو اور زیادہ حسین بنایا جاتا ہے۔ بیشتر خواتین اسے محفوظ سرمایہ کاری سمجھ کر محفوظ کرتی ہیں۔
کورونا وبا کے بھارتی معیشت پر وار
معاشی تجزیہ کار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نریندر مودی نے انتہائی عجلت اوربغیر منصوبہ بندی کے بھارت بھر میں لاک ڈاؤن کا نافذ کردیا،جس کی وجہ سے ایشیا کی تیسری سب سے بڑے معیشت بری طرح بحران سے دوچار ہوئی۔ کاروباری بندش اور نوکریوں کی کٹوتی کی بنا پر بھارت کو ایک سال میں 230ملین سے زائد بھارتیوں کو غربت میں دھکیل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد، کرایہ، اسکول کی فیس، ہسپتال کے بل ادا کرنے میں دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق حالیہ ہفتوں میں بجلی، تیل اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے ہر بھارتی پر غیر معمولی بوجھ پڑا ہے۔ بہت سارے چھوٹے کاروبار کرنے والے ادارے بند ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے بے روزگاری کا پھیلاؤ اور بڑھ گیا۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے بیشتر افراد مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے قیمتی سامان کو فروخت کریں اور جن کے پاس یہ سب بیچ کر بھی کچھ نہیں بچ پا رہا، وہ سونے کے زیورات کی جانب جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ تو ان کو سنار کے پاس گروی رکھوا کر قرض لے کر پھر سے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے مرکزی بینک کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ 2021کے ابتدائی 8ماہ کے دوران بینکس نے سونے کو گروی رکھنے کے عوض کم و بیش 4ارب 71کروڑ روپے کے قرضے دیے۔ جوگزشتہ سال کے مقابلے میں 74فی صد زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے بیشتر صارفین ان قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکے، جبھی سونا نیلام کرنا پڑا۔
Discussion about this post