انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی نئی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکام، ٹیکس چوری اور مالی بے ضابطگیوں کو وجہ بنا کر انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ رواں ماہ بھارتی حکام نے سری نگر، دہلی اور ممبئی میں صحافیوں کے گھروں، اخبارات کے دفاتر اور انسانی حقوق کے کارکن کے دفتر اور گھر پر چھاپے مارے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ چھاپے درحقیقت حکمراں بھارتیا جنتا پارٹی کے اُس کریک ڈاؤن کا حصہ ہے، جس کے تحت آزادی رائے پر قدغن لگانا ہے۔ وہیں حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنا ہے۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق کارکنوں، صحافیوں، دانشوروں اور طالب علموں کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات لگا کر انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کی جنوبی ایشیا ئی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا اس سارے معاملے پر کہنا ہے کہ ’چھاپوں کا مقصد ناقدین کو ہراساں کرنا اور دھمکانا ہے اور تمام تنقید کو خاموش کرنے کے لیے انتہا پسند بھارتی حکومت ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔ یہ ہتھکنڈے بھارتی بنیادی جمہوری اداروں کو کمزور کرتی جارہے ہیں۔‘ ایڈیٹرز گلڈ اور پریس کلب آف انڈیا نے کئی بار آزاد میڈیا کو ہراساں کرنے پر احتجاج کیا ہے۔ جن کا مطالبہ ہے کہ مودی حکومت ذرائع ابلاغ کی آزادی کو چھین رہی ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ 16ستمبر کا ہے، جب مالی جرائم کی تفتیش کرنے والے ادارے ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ کے اہلکاروں نے مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر دہلی میں سماجی کارکن اور صحافی ہرش مندر کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا۔ جس پردانشوروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات نے پرزور مذمت کرتے ہوئے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا۔ ہرش مندر دراصل بی جے پی حکومت کے اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور متاثرین کے مسائل ہر پلیٹ فارم پر اٹھاتے ہیں۔
بدقسمتی سے فروری 2020میں دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات اور تشدد کو بھڑکانے والے بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے ہرش مندرکے خلاف ہی من گھڑت مقدمہ درج کرلیا۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ کے مطابق 8ستمبر کو مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے 4صحافیوں ہلال میر، شاہ عباس، شوکت اور اظہر قادری کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے۔ اِن کے فون اور لیپ ٹیپ ضبط کرلیے گئے۔ ہلال میر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اہلکار اُن اور اہلیہ کے پاسپورٹ تک لے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ کئی صحافی ایسے ہیں، جن پر دہشت گردی کا الزام لگا کر مختلف مقدمات میں گھسیٹا جارہا ہے اور یہ وہ سب ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خلاف مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون میں اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر اور ورکنگ گروپ نے بھارتی حکومت کو خط لکھا کر مقبوضہ کشمیر میں ریاستی حراستی مراکز میں صحافیوں پر تشدد اور ہراساں کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ رواں ماہ ہی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے مبینہ ٹیکس چوری کی تحقیقات کا جواز بنا کر ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز نیوز لانڈری اور نیوز کلک کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ یہ دونوں ادارے مودی حکومت کی تنگ نظری سے بھرے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں،چھاپوں کا مقصد ان اداروں پر دباؤ ڈالنا تھا۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ کے مطابق جولائی میں ٹیکس حکام نے بھارت کے کئی اُن اخبارات کے دفاتر پر چھاپے مارے، جنہوں نے مدھیہ پردیش، دہلی، راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر میں کورونا وبا سے نمٹنے میں حکومتی نااہلی اور لاپرواہی کو اجاگر کیا۔
کچھ ایسا ہی اداکار سونو سود کے ساتھ ہوا، جنہوں نے کورونا وبا میں ناقص انتظامات پر تنقید کی تو انکم ٹیکس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کو فروغ دینے کے سرگرم اور فعال اداروں، صحافیوں اور دانشوروں کے خلاف بدترین ریاستی دہشت گردی اورہراسانی میں مصروف ہے۔ سول سوسائٹی بھارت میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔ جبھی بار بار تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔
Discussion about this post