بے نظیر بھٹو۔۔۔ مدبر۔ دلیر اور دور اندیش سیاست دان۔۔ پرعزم اور پر جوش۔ جو حقیقی معنوں میں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوامی لیڈر تصور کی جاتیں۔ جنہوں نے اقوام عالم میں اپنی ذہانت اور قابلیت سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔جن کا جوشیلا جوش خطاب عوام میں حرارت بھر دیتا ، جو عوام کی بات کرتیں۔ ان کے دل کی دھڑکن بن کر دھڑکتیں۔جن کی سیاسی جدوجہد 1977میں والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد شروع ہوئی اور راولپنڈی میں ہونے والے اُن کے آخری جلسے تک جاری رہی۔ آمریت کے دور میں قید کی مشکلات بھی جھیلیں لیکن کسی بھی مرحلے پر اُن کے قدم ڈگمگائے نہیں۔ کہیں بھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔
جنہیں جلا وطن بھی کیا گیا لیکن کون بھول سکتا ہے وہ تاریخی استقبال جب 1986میں بے نظیر بھٹو لاہور واپس آئیں تو عوام کا ایک سمندر تھا، جو بھٹو کی بیٹی کے استقبال کے لیے سڑکوں پر امڈ آیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی تو اپنے مدبرانہ فیصلوں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے کئی مشکلات جھیلیں۔1988میں الیکشن ہوئے تو کراچی سے خیبر تک صرف ایک آواز گونج رہی تھی ’ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر ‘۔ الیکشن میں زبردست کامیابی کے بعد 2دسمبر 1988کو ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
واقعی وہ لمحات بڑے یادگار تھے لیکن 20ماہ بعد اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت کو کرپشن کے مبینہ الزامات کے تحت برطرف کیا لیکن پھر 1993میں بے نظیر بھٹو الیکشن جیت کر ایک بار پھر وزیراعظم بن چکی تھیں مگر ایک با پھر اُن کی حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا کر اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ 1998میں وہ دبئی اور لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں اور پھر ایک طویل عرصے بعد 18اکتوبر 2007کو جب وہ وطن واپس لوٹیں تو اُ ن مناظر کو بھلا کون ذہنوں سے کھرچ سکتا ہے۔ کراچی میں اُن کی آمد پر ایسا لگ رہا تھا کہ پورا ملک اس شہر میں ان کے استقبال کے لیے آکھڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اسی دوران اُن پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ اِس میں محفوظ رہیں۔
بے نظیر ہر قسم کے خوف اور ڈر سے بالاتر تھیں۔ نڈر تھیں۔ مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتیں۔ اقوام عالم میں پاکستان کا موقف ٹھوس، دلائل اور مثبت انداز میں پیش کرتیں جو جب بھی مخاطب ہوتیں تو دنیا اُنہیں بغور سنتی۔ گو کہ اُنہیں کئی بار جان لیوا دھمکیاں ملیں لیکن ان کی تمام تر توجہ مرکز 2008کے انتخابات تھے۔ جس کے عوامی جلسوں کے لیے وہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں جلسے کرتیں۔ 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی لیاقت باغ میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرنے کے بعد وہ واپس جارہی تھیں، جب خود کش حملے اور گولیاں لگنے وہ ایسی زخمیں ہوئیں کہ اسپتال پہنچتے پہنچتے زندگی کی بازی ہار گئیں اور یوں ایک عہد ایک جدوجہد ہی ختم نہ ہوئیں بلکہ ایک باکمال، جرات مند اور قابل لیڈر کو عوام نے کھو دیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بے نظیر بھٹو نے خواتین کی بہبود اور ترقی کے لیے قابل قدر اقدامات کیے۔خواتین کے خلاف متعدد امتیازی قوانین کا خاتمہ بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ جمہوریت کی بقا، اس کی خاطر قربانیوں، انسانی حقوق کے تحفظ، صنفی امتیاز کے خاتمے اور عوام دوست نظریات کے باعث انہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔آج بے نظیر بھٹو کو عوام سے جدا ہوئے 14برس بیت گئے ہیں۔
برسی کے موقع پر لاڑکانہ میں ملک بھر سے قافلے پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ جہاں سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن شہید بے نظیر بھٹو کی 14ویں برسی پر عظیم الشان اجتماع ہوگا۔ اس موقع پر پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ یوم شہادت پر پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو ایک تحریک اور مشعل راہ ہیں۔ جنہوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے غیر معمولی خدمات دیں۔
Discussion about this post