نومبر 1992میں جب ہندو انتہا پسند شیو سینا اور بھارتیا جتنا پارٹی نے یہ شوشا چھوڑا کہ مغل دورمیں تعمیر ہونے والی بابری مسجد دراصل مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے تو بھارت میں اشتعال دلانے اور انتشار پھیلانے کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی کے لال کرشنا ایڈوانی پیش پیش رہے۔ جنہوں نے بھارتی ہندوؤں میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ ایودھیا کی بابری مسجد کی اراضی پر دراصل رام کا جنم ہوا تھا، جسے بعد میں مسجد بنادیا گیا۔ بال ٹھاکرے اورایل کے ایڈوانی سمیت دیگر ہندو انتہا پسندوں نے اعلان کردیا کہ وہ 1528 میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے ہندو انتہا پسندوں سے مسجد کو شہید کرنے کے لیے ایودھیا کی طرف چڑھائی کرنے کے منصوبے کے تحت ’رام رتھ یاترا‘ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد بھارت بھر سے مختلف گروہوں ہاتھوں میں بھالے، کلہاڑیاں، کدال، ہتھوڑے تھام کر ایودھیا کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ جنہیں اکسانے میں انتہا پسند پیش پیش رہے۔ دسمبر میں یہ انتہا پسند ایودھیا میں جمع ہونے لگے۔ اِدھر بھارتی مسلمانوں نے اس انتہا پسندی اور دہشت گردی پر احتجاج کیا تو کسی نے اُن کی فریاد نہیں سنی۔
اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کو چاروں طرف سے شیو سینا، بی جے پی، آر ایس ایس، وشوہندو پریشد اور اسی جیسی انتہا پسند تنظیموں نے گھیر رکھا تھا۔ ایل کے ایڈوانی قیادت کررہے تھے جبکہ بھارتی ہندوؤں کے جذبات کو اکسانے کے لیے مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتی چلی جارہی تھیں۔ اس موقع پر پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اور پھر 6دسمبر 1992کو بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن بھی آیا، جب ان جتھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے بابری مسجد کو شہید کر ڈالا۔
ہزاروں کی تعداد میں متعصب انتہا پسند تھے، جنہوں نے بابری مسجد پر حملہ کیا۔ حفاظتی دیواریں اور مسجد کا مینار تک شہید کرڈالا۔ صرف بابری مسجد کو ہی نہیں بلکہ ایودھیا میں دیگر مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارتی مسلمانوں کے احتجاج اور مظاہرے بھی ہوئے۔ جبکہ کئی مسلم آبادیوں پر ہندو تنگ نظر تنظیموں نے حملے بھی کیے۔
ہندو مسلم فسادات اس قدر برپا ہوئے کہ کم از کم 2000ہزار اپنی جانوں سے چلے گئے۔ اُس وقت کی کانگریسی حکومت بابری مسجد کی شہادت کے بعد جاگی۔ جس نے مسجد کے اطراف حفاظتی باڑ لگا ئی۔ 16 دسمبر 1992کو اس معاملے کی چھان بین کے لیے جسٹس من موہن سنگھ لبرہان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی۔جس کی تحقیقات میں 68افراد کو بابری مسجد کی شہادت کا قصور وار تسلیم کیا۔ ان میں واجپائی، ایڈوانی، جوشی وغیرہ شامل تھے۔ اُس وقت کے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ کلیان سنگھ پر بھی تنقید کی گئی کہ انہوں نے ایسے سرکاری افسران اور پولیس اہلکاروں کو وہاں تعینات کیا جن کے متعلق یقین تھا کہ مسجد کے انہدام کے وقت وہ خاموش رہیں گے۔المیہ یہ ہے کہ کئی برسوں تک چلنے والی تحقیقات اور سماعتوں کے باوجود 9نومبر 2019میں بھارتی سپریم کورٹ نے یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کرنے والے مجرموں کو بری کردیا۔ جبکہ بابری مسجد کی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی گئی،جو اس کی شہادت میں پیش پیش تھے۔
مسلمانوں کا موقف
بھارتی مسلمانوں نے بیشتر سماعتوں میں اس بات کے ثبوت بھی پیش کیے کہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی ظاہر کرنے کے لیے مسجد کے مختلف حصوں میں ہندو انتہا پسند وں نے خفیہ طور پر رام کی مورتیاں بھی مدفن کرائیں۔
بابری مسجد اور مقدمے
1994میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد شہادت کے متعلق مقدمے کا آغاز بھی کیا۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر بھارتی عدالتوں نے انتہا پسندوں کا ہی ساتھ دیا۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ 4 مئی 2001 خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
جس کے بعد یکم اپریل 2002کو ایودھیا کی بابری مسجد کی اراضی پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججو ں کی بنچ نے سماعت کاآغاز کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کا حکم دیا تاکہ یہ پتا لگایا جائے کہ مسجد پہلے مندر تھی کہ نہیں۔
جس کی رپورٹ میں مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشاروہاں ملتا ہے۔ اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔جس کے بعد عدالت نے تمام فریقین سے اس معاملے کا حل نکالنے کا حکم دیا۔30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے فیصلہ دیا کہ زمین کی اراضی کو تین حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیالیکن پھر اگلے ہی برس سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیا گیا۔ جس کے بعد 19 اپریل 2017کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔جو پھر 2019میں پھر سے بری کردیے گئے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے یہ عجیب فیصلہ بھی دیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کے لئے اراضی ٹرسٹ کو سونپی جائے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل زمین فراہم کی جائے۔ رواں برس5اگست کو بھارتی وزیراعظم مودی کے ہاتھوں سے ہی بابری مسجد کی اراضی پر رام مندر تعمیر کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔
Discussion about this post