یہ 2006کی بات ہے، جب پاکستان اور بھارتی فنکارایک دوسرے کے ملک جا کر آزادانہ پرفارم کررہے تھے۔پاکستانی گلوکار اور فنکاروں کو پسند کرنے والوں کا وسیع حلقہ تھا۔عمر شریف تو 80کی دہائی سے بھارتی عوام اور فنکار کے محبوب کامیڈین رہے ہیں۔ جن کی ایک ایک جملے پر بھارتی لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ایک زمانے میں جب عمر شریف کے اسٹیج ڈرامے ویڈیو پر نہیں آئے تھے، تو ممبئی کے ٹیکسی ڈرائیور، عمر شریف کے آڈیو کیسٹ ٹیپ ریکارڈ ر میں لگا کر خود بھی سنتے اور مسافروں کو بھی سناتے اور پھر ویڈیو پر اسٹیج ڈرامے پیش ہونے پر بھارت میں عمر شریف کو عوامی پہچان ملی۔ 2005میں عمر شریف نے زی سنے ایوارڈ میں شرکت کرکے ہر بالی وڈ ستارے کو اپنے جملوں اور گفتگو سے ہنسنے پر مجبور کیا۔
اسی دوران امریکی نژاد بزنس مین مسعود علی نے بالی وڈ فلم کے لیے سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ جس میں 70کی دہائی کے سپر اسٹار راجیش کھنہ، اشمت پاٹیل اور آرتی چھابڑیہ مرکزی کردار وں میں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کی ہدایتکاری کے لیے مسعود علی نے عمر شریف کا انتخاب کیا۔ فلم کے بارے میں کہا گیا کہ یہ رومانی کامیڈی فلم ہوگی۔ جس کا بجٹ 120ملین روپے رکھا گیا۔ ’تم میرے ہو‘ نامی اس فلم کی عکس بندی کے لیے حیدر آباد دکن کی لوکیشن چنی گئی،جبکہ باقی عکس بندی امریکا میں بھی ہوتی۔ پروڈیوسر مسعود علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمر شریف کو بطور ہدایتکار اس لیے سائن کیا کیونکہ انہوں نے ان کی کئی فلمیں دیکھی ہیں، جن میں انہوں نے ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے۔ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو بہتر بنانے کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔یہ پہلی بالی وڈ فلم تصور کی گئی، جس کی ہدایتکاری کوئی پاکستانی دے رہا تھا۔
عمر شریف نے ’تم میرے ہو‘ کے کچھ حصوں کی عکس بندی بھی دینا شروع کردی لیکن بدقسمتی سے اسی دوران بھارتی انتہا پسندوں نے پاکستانی فنکاروں کے خلاف محاذ کھڑا کردیا۔ ایک بار پھر زور پکڑا کہ پاکستانی فنکاروں کو کسی صورت بھارت میں کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔جس کے نتیجے میں فلم کی عکس بندی مسلسل التوا کا شکار ہوتی گئی اور پھر وہ دن بھی آیا جب پروڈیوسر مسعود علی کو مجبوراً یہ فلم ڈبوں میں ہی بند کرنی پڑی۔
Discussion about this post