اسلام آباد کی خاتون پولیس افسر آمنہ بیگ کی ٹوئٹس پر سوشل میڈیا پر تعریف کی جارہی ہے ۔ جنہوں نے سوشل میڈیا پر سلسلہ وار2 ٹوئٹس کرتے ہوئے لکھا کہ ’اُن کا دل اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب خواتین کو حق وراثت میں حصہ لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص جب اُس کے سر پر سے والدین یا شوہر کا سایہ اٹھ جائے۔ کئی کو حصہ نہیں ملتا۔ جنہیں حاصل کرنے کے لیے خواتین کو عدالتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔کئی خواتین کے پاس اس حق کو حاصل کرنے کی جنگ کے لیے ذرائع بھی نہیں ہوتے۔‘
Breaks my heart to see women walk in with complaints of close relatives hogging on to their legitimate share in property after husband’s/parents’ death. So many of them are deprived of their just share bc a man is in control of it, and it’s a task to go through courts to get it.
— Amna Baig (@amnaappi) September 23, 2021
آمنہ بیگ کے اس حقیقت پسندانہ تجزیہ پر تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ملائیکہ بخاری نے جواباً ٹوئٹ میں بتایا کہ خواتین کی جائیداد کے حقوق ایکٹ2020کا نفاذ محتسب کے لیے بنایا گیا ہے، جس کا مقصد خواتین کے خلاف ہراساں کرنے کے اس طرح کے معاملات کو سننے کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔ شکایت، ایک دوست یا سماجی تنظیم یا پھر متاثرہ خاتون بھی کرسکتی ہے۔
The enforcement of women’s property rights Act 2020 gives ombusdperson for harrasment against women at workplace wide powers for cognizance of such cases. Complaint can be made by a friend, NGO or the victim. Happy to brief your team on -referral & complaint filing.
— Maleeka Bokhari (@MalBokhari) September 23, 2021
ایک صارف فیصل اقبال کا کہنا ہے کہ قانونی جنگ لڑ کر حصہ لیتے لیتے خواتین تمام ضروری ترین مواقع جہاں رقم خرچ کرنے کی انتہائی ضرورت پیش آتی ہے، اُس سے گزرتی ہیں۔
قانونی جنگ لڑ کر حصہ لیتے لیتے وہ تمام ضروری ترین مواقع جہاں وراثتی پیسے خرچنے کی انتہائی ضرورت پیش آتی ہے گزر چکے ہوتے ہیں
— Faisal Iqbal (@RaoAdvocate) September 23, 2021
ایک صارف سجاد فیصل کے مطابق آمنہ بیگ نے درست مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔کیونکہ نادرا کی جانشینی کا سرٹی فکٹ حاصل کرنے کے لیے ان تھک محنت اور کوششوں کی ضرورت ہے۔صبور کہتے ہیں کہ یہاں بہنوں کی دیکھ بھال اور انہیں حصہ دینے کی تربیت کی ضرورت ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ زیادہ دیں تاکہ زندگی آسان ہوجائے۔
Ther is need to Train children to be caring of their sisters and give them their share and if required give more and care for them entire life linstead of grabing their share.
— sabur (@sabur35) September 23, 2021
ایک صارف اقصیٰ مغل کا کہنا ہے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ خاندانی ریکارڈ رکھنے اور جائیداد کے حقائق کی دستاویزات کے لیے مناسب نظام درکار ہے۔
It’s a harsh reality, and sadly so many have accepted it as it is. We need a proper system for family record keeping and documentation of property entitlement.
— Aqsa Mughal (@aqsasmughal) September 23, 2021
حمزہ رومیل خان کے مطابق المیہ یہ ہے کہ جب خواتین جائز حق کا مطالبہ کرتی ہیں تو انہیں لالچی کہا جاتا ہے۔
Ironically when they demand for their rightful share family call them the greedy one
— حمزہ رومیل خان (@hamzaromailkhan) September 23, 2021
ایک صارف شہزاد خان نے اپنی بپتا سناتے ہوئے لکھا کہ اُُن کی والدہ 15سال تک عدالتوں میں وراثت کے حق کے لیے لڑ رہی تھیں اور کچھ برس پہلے اُن کی وفات ہوگئی۔
My mom is fighting for inheritance rights in courts for 15+ years and has now passed away few years ago.
— Shahzad Khan (@shazadk) September 23, 2021
طاہرہ حسن کے مطابق یہ سچائی ہے، جسے ہم ہر وقت دیکھتے ہیں۔ افتخار فردوس نے سپریم کورٹ کے کے آج کے فیصلے کا ذکر کیا ہے، جس کے تحت خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگاکا حوالہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینج نے پشاور کی رہائشی خواتین کے بچوں کا نانا کی جائیداد میں حق کا دعویٰ مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ عیسیٰ خان نامی شخص کی دونوں صاحبزادیوں کے بچوں کے سلسلے میں دیا گیا۔ جنہوں نے 2004میں نانا کی وراثت میں حق کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ سول کورٹ نے نواسوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا جسے پشاور ہائی
کورٹ نے کالعدم قرار دے یا تھا۔ جس پر انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اُس نے بھی پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون وراثت میں خواتین کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ خواتین خود اپنے حق سے دست بردار ہوں یا دعویٰ نہ کریں تو کیا ہوگا۔
نفاد ملکیتی حقوق نسواں ترمیمی قانون کیا ہے؟
رواں سال جون میں یہ بل سینیٹ سے منظور کرایا گیا، جسے قانون کی شکل دی گئی۔ جس کے ذریعے محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو 30دن کے اندر اپیل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی خاتون کو اُس کی جائیداد کا قبضہ نہیں دیا جائے تو متعلقہ جائیداد کے حوالے سے عدالت میں کوئی مقدمہ التوا کا شکار نہ ہوگا، بلکہ خاتون یہ درخواست محتسب کو روانہ کرسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں محتسب، متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے 15دن میں رپورٹ طلب کرنے کا پابند ہوگا۔ جس کے بعد وہ تمام تر دستاویزات کا جائزہ لے کر فیصلہ سنا سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت محتسب، شکایت گزار اور مخالف فریقین سے بھی اعتراضات طلب کرے گااور 2ماہ میں سماعت مکمل کرنے کا پابند ہوگا۔ قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ خواتین کو وراثت میں حق دیا جائے اور ان کی ملکیت کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اسلامی شرعی قانون وضوابط بھی اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ خواتین کو کسی بھی صورت جائیداد سے محروم نہ رکھا جائے۔ چاہے وہ والد یا والدہ کی جانب سے چھوڑی ہوئی ہو یا پھر شوہر کی طرف سے۔واضح ہدایت ہے کہ خواتین کی جائز جائیداد پر قبضہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
Discussion about this post