سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کراچی رجسٹری میں دعا زہرہ کے والد نے درخواست دائر کی تھی۔ مہدی کاظمی نے عدالت سے استدعا کی کہ بیٹی سے صرف 5 منٹ ہی ملاقات ہوئی۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پر لڑکی کو طلب کرکے تحقیقات کی گئیں۔ لڑکی نے خود بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو پھر اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کا اغوا کا دعویٰ سمجھ نہیں آرہا۔ لڑکی نے باقاعدہ 2 عدالتوں میں مرضی سے جانے کا بیان دیا ہے۔ اس تناظر میں چائلڈ میرج کی بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر لڑکی دعا زہرہ والد سے مل کر بھی یہ کہے کہ وہ شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے تو پھر وہ کیا کہیں گے ؟ عدالت نے والد مہدی کاظمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور آپ کی شریک سفر سکون سے بیٹے ملیں، چاہے اس کے لیے کتنا ہی وقت لیں۔ بچی نے مرضی سے بیاہ رچایا، یہ مان لیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت اس شادی کا تعین کرے کہ یہ درست ہے کہ نہیں؟ مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ ایسا ہی چاہتے ہیں، لڑکی بہت چھوٹی ہے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ شادی کی حیثیت کو چیلنج تو صرف لڑکی کر سکتی ہے، قانون تو واضح ہے۔ دوسری جانب جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گارڈین کا کیس سیشن عدالت میں دائر کیا جاسکتا ہے ۔ میرج ایکٹ کے مطابق لڑکی کی شادی کو صرف لڑکی ہی چیلنج کر سکتی ہے، ہراسانی اور اغوا کا کیس تو نہیں بنتا، اگر 16 سال سے کم عمر میں بھی شادی ہو تو نکاح رہتا ہے، نکاح ختم نہیں کر سکتے، چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو۔ سپریم کورٹ نے دعا زہرا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جس کے بعد والد مہدی کاظمی کے وکیل نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے ان کی درخواست خارج کردی۔ سپریم کورٹ نے مہدی کاظمی کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ متعلقہ کیس اُس کے دائرہ کار میں نہیں آتا، دعا کی عمر سے متعلق میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے مناسب فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلے میں اُنہیں کہا ہے کہ آپ عمر کے تعین کی رپورٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔جس کے لیے اب باقاعدہ درخواست تیار کی جارہی ہے۔ اگر یہ درخواست سیکریٹری صحت درخواست منظور نہیں کرتے تو سندھ ہائیکورٹ جائیں گے،
Discussion about this post