ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اگر جنگ ہوگی تو وہ پانی پر ہوسکتی ہے ۔ پانی تک رسائی سب کا بنیادی حق ہے۔ پانی، روشنی اور ہوا اگر طلب بھی کی جائے تب بھی انسان کو پشیمانی نہیں ہوتی۔ البتہ دنیا میں ایسے بد دیانت لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے پانی تک رسائی کو کبھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا تو کبھی اپنی نااہلی کی وجہ سے اس بات کو یقینی نہیں بنا پائے کہ پانی کو ذخیرہ کردیں۔ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں پانی کو ذخیرہ کرنے میں عالمی سطح پر ناکامی خاص طور پر جب دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں نے سیلاب، بارشیں بڑھا دی ہیں مگر کہیں پر بھی ایسا نظام متعارف نہ کروا پائے کہ موجودہ آبی ذخائر میں قابل قدر اضافہ ہوسکے۔ اس رپورٹ جس کا نام تھآ اسٹیٹ آف کلائیمیٹ سروسز 2021 تھا اور جسے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی چلنے والے عالمی میٹروجیکل آرگانائزیشن ، عالمی ڈیولپمنٹ ایجنسیزاور سائنٹیفک انسٹیٹیوشن کی مدد سے ترتیب دی گئی اور جس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ مستقبل قریب میں پانی کا بحران دنیا بھر میں آسکتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ جاگ جایا جائے اور اقدامات کو یقینی بنا لیا جائے۔ اس رپورٹ کے مطابق پوری دنیا مین2٫3 ارب افراد ہیں جن کو پانی کی رسائی تک شدید دشواریاں ہیں یا پانی صحیح طرح سے ان کے پاس دستیاب نہیں سب سہارن آفریقی ممالک میں کل 40 بلین گھنٹے سالانہ لگتے ہیں جس میں ان ممالک کی خواتین صرف بارش کے پانی کوذخیرہ کرنے میں صرف کردیتی ہی۔ جس water harvesting کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ 2050 تک اس کی تعداد 5 بلین لوگوں کو چھوسکتی ہے جہاں پانی کی قلت ہو۔
پاکستان اور بھارت ایک ہی کشتی کے سوار
دوسری طرف سب سے زیادہ سیلاب نے جنوبی ایشیا ممالک جن میں بھارت اور پاکستان پیش پیش ہیں ان کو نقصان پہنچایا ۔ اسی رپورٹ میں دونوں ممالک پر تنقید کی گِئی ہے کی کہ وہ ایسے اقدامات نہیں اٹھارہے جس سے پاںی کا ذخیرہ ہوسکے۔ ایک ڈیٹا جو اسی رپورٹ میں شائع ہوا ہے اس مِیں یہ کہا گیا ہے کہ پچھلے برس بھارت کو سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو اس رپورٹ میں 17 ممالک کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان14 ویں نمبر اور بھارت 13 نمبر پر اتا ہے۔ ْقظر ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے۔
بھارت اور پاکستان کا 1960 کا پانی کا معاہدہ جو انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے مشہور ہے اور جسے عالمی بینک نے کرایا تھا وہ آج تک دونوں مملک کے درمیان تنازع کی وجہ ہے۔ بھارت نے کئی موقع پر پاکستان کے پانی کو بند کیا یا اس میں کمی کردی تاکہ پاکستان کو آبی طور پر بھی پریشان کیا جاسکے۔
پانی تعصب کا شکار
صرف بین الاقوامی طور پر پانی کے مسائل پر سیاست نہیں بلکہ اندرونی سیاست بھی پانی کے مسائل پر گھومتی پے۔ اگر پاکستان منگلہ اور تربیلہ ڈیم بنانے میں کامیاب نہ ہوتا تو آج پاکستان کی بقا شاید خطرے میں رہتی۔ لیکن مزید ڈیمز بنانے کی ضرورت تھی مگر ہمیشہ ذاتیات، تعصبات کی جنگ نے ملکی مفاد کو ہمیشہ نقصان پہنچاہا ہے۔ کون بھول سکتا ہے 11-2010 کے سیلاب جن کی تباہ کاریاں سے اربوں کا نقصان اور کئی فصل کا برباد ہوئیں۔ اب حال ہی میں وزیراعلیِ سندھ مراد علی شاہ نے آبی ذخائر کے وزیر، مونس الہی کے سامنے 1991 کے پانی کے معاہدے کے علاوہ ہر معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر چاہتے تھے کہ سندھ حکومت 1991 کے آبی معاہدے کو خاطر میں نہ لائے اور ایک نئے آبی معاہدے کی تشکیل دی جائے جو حقیقت پسندانہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ 1991 کا معاہدہ کچھ غلط فہیمیوں کی وجہ سے اب نہیں امپلیمینٹیبل ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلی مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ معاہدہ کونسل آف کامن آنٹرسٹ کے تحت بنایا گیا تھا جس میں تمام صوبوں کی مرضی شامل تھی ۔ مزید یہ کہ انھوں نے ارسا (Indus River System Authority ) کو مضبوط بنابے کے لیے بھی زور ڈالا کہ سندھ کو بھی اس کے مقدار کا پانی مل سکے۔ حال ہی میں سندھ نے ارسا پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ پنجاب کو پانی زیادہ فراہم کرتی ہے خاص طور پر خریف سیزن کے دور میں۔
قطع نظر جو بھی بات صحیح ہو لیکن آگر ہماری قومی قیادت اسی بات پر ہی متفق نہ ہو پائے کہ کون کتنا پانی استعمال کریگا تو وہ کیا عالمی پانی کی اقوام متحدہ کی رپورٹ پر دھیان دے گی ؟۔ دنیا کہاں جارہی ہے اور ہم آج بھی وہیں ڈیم بنانے اور نہ بنانے کے چنگل میں ۔
Discussion about this post