چند دن پہلے خاتون اول تہمینہ درانی نے جب بلقیس ایدھی کی نجی اسپتال میں تیمارداری کرتے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پرشیئر کی تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ اگلے کچھ دنوں میں وہ بلقیس ایدھی سے محروم ہوجائیں گے۔ 74 برس کی بلقیس ایدھی اس عمر میں بھی بلند حوصلہ اور عزم کی حامل تھیں۔ ملک کی سب سے بڑی سماجی اور فلاحی تنظیم ایدھی فاؤندیشن کی چیئرپرسن ہونے کے باوجود ان کی گفتگو اور سراپے سے سادگی اور معصومیت ہی نظر آتی۔ 14 اگست 1947 کو بھارتی شہر بانٹوا میں جنم ہوا اور پھر قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔ عبدالستار ایدھی سے 1966 میں شادی کی اور یہ رشتہ ایدھی صاحب کی وفات تک جاری رہا۔ شاندار اور ناقابل فراموش خدمات پر حکومت نے ” ہلال امتیاز” سے سرفراز کیا۔
ایدھی صاحب کئی انٹرویوز میں برملا کہتے کہ اگر بلقیس ایدھی نہ ہوتیں تو وہ اپنے اس فلاحی اور سماجی سفر کو کسی صورت جاری نہیں رکھتے۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اب تک 16 ہزار سے زائد لاوارث بچوں کو گود لے چکی تھیں۔ جن کی نگہداشت وہ کسی حقیقی ماں کی طرح کرتیں۔ ان میں سے کئی بچیاں تو ایسی تھیں، جنہیں بلقیس ایدھی اور ایدھی صاحب نے والدین بن کر بیاہ بھی کرایا۔ صرف یہی نہیں وہ بے سہارہ خواتین کی بھی مدد کے لیے بھی ہر لمحہ تیار رہتیں۔ بلقیس ایدھی کی نماز جنازہ ہفتے کو بعد نماز ظہر نیو میمن مسجد کھارادر میں ادا کی جائے گی۔
بھارت میں مدرٹریسا ایوارڈ
لاوارث اور بے سہارہ بھارتی لڑکی گیتا کو اس کے خاندان تک پہنچانے کے لیے بلقیس ایدھی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔سماعت اور گویائی سے محروم گیتا کے لیے بلقیس ایدھی نے ان تھک محنت اور جتن کیے۔ اسی بنا پر بلقیس ایدھی کو 2015 میں مدر ٹریسا ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔
Discussion about this post