ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق مری اور اس کے گرد ونواح کی سڑکیں گزشتہ 2 برسوں کے دوران مرمت سے محروم رہیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر نو پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بنی۔ مری میں ایک کیفے کے باہر پھسلن ہونے کے باوجود حکومتی مشینری موجود نہیں تھی۔ یہی وہ پھسلن والا مقام تھا، جو مری سے نکلنے کا مرکزی خارجہ راستہ تھا۔ اس راستے سے برف ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہ تھی۔ بجلی کی عدم فراہمی کی بنا پر سیاحوں نے ہوٹلز چھوڑ کر گاڑیوں میں بیٹھنے کو زیادہ ترجیح دی۔ رات گئے ڈی سی راولپنڈی اور سی پی او کی مداخلت پر مری میں گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی۔ ٹریفک بند ہونے کے باعث برف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیورز بھی بروقت موقع پر نہ پہنچ سکے۔
متعلقہ اسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیے موقع پر موجود تھے۔ بدقسمتی سے مری میں کوئی ایسا پارکنگ پلازہ بنایا نہیں گیا جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکیں۔ صبح 8 بجے برفانی طوفان تھما تو انتظامیہ حرکت میں آئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تحقیقات کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی۔ جبکہ مری کو ضلع کا درجہ دینے کا بھی اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ سنی بینک اور جھیکا گلی میں 2 پارکنگ پلازاز کی تعمیر بھی کی جائے گی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مری میں سیاحوں کے داخلے پر مزید 24 گھنٹے کےلیے پابندی لگادی ہے۔ مری اور ملحقہ علاقے کے مکینوں کے لیے شناختی کارڈ دکھانا لازمی ہوگا۔
مصبیت کی گاڑی میں منافع خور فعال
سیاحوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ سخت سردی سے بچنے کے لیے جب انہوں نے مری کے ہوٹلز کا رخ کیا تو ایک کمرے کا کرایہ 50 ہزار روپے تک مانگا گیا۔ جبکہ گاڑیوں کو دھکا لگانے والے افراد نے بھی منہ مانگی قیمت وصول کرنے کی فرمائش کی ۔
Discussion about this post