ہمارے معاشرے میں کئی ایسے بچے ہیں جو ماں یا باپ کسی ایک کے زیرسایہ پرورش پاتے ہیں اور زندگی میں آئے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں، انہیں چیلنجز میں ایک انکی شناخت کا چیلنج ہے جس کے لیے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہے۔ان سنگل پیرنٹ بچوں میں ایک 18 سالہ روبینہ بھی ہے جو بچپن سے جسمانی طور پر معذور ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے، روبینہ کی پیدائش کے بعد ا والد نے اسے اور اس کی والدہ کو چھوڑا تو روبینہ کی شناخت بھی اسی کے ساتھ چلی گئی، جب روبینہ 18 سال کی ہوئی اور اپنے شناخت کیلئے نادرا کا رخ کیا تو وہاں اسے بتایا گیا کہ جب تک وہ اپنے ماں اور باپ دونوں کا ریکارڈ پیش نہیں کرے گی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ماضی میں کئی یتیموں نے سامنا کیا ہے۔ اس مسئلے پر کئی اداریے بھی لکھے جا چکے ہیں جبکہ کئی نے سرکاری محکموں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے مگر ان کے ہاتھ مایوسی کے علاوہ کچھ نہ آیا، تاہم روبینہ یتیم نہیں لیکن اسے اپنے والد کا کچھ آتا پتہ معلوم نہیں، روبینہ نے کیس لڑنے کی ٹھانی اور اپنی شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس نے عدالت میں درخواست دائر کی جس پر سندھ ہائی کورٹ نے نادرا کوہدایت کی کہ روبینہ کو اس کی والدہ کے شہریت کے ریکارڈ کی بنیاد پر شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ ایڈووکیٹ عثمان فاروق کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق اسی طرح کے کیسز پر ہوگا اور سنگل والدین والے بچے صرف ایک والدین کا ریکارڈ پیش کرنے کے بعد اپنے شناختی کارڈ حاصل کر سکیں گے۔ عدالت کے حکم نے روبینہ کے لیے پبلک سیکٹر میں ملازمت حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن کردیئے ہیں۔ ان کی والدہ محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہونے والی ہیں اور یہ عہدہ روبینہ کو دیا جا سکتا ہے۔ عدالت کے اس تاریخی فیصلے پر اب وہ تمام بچے جنہیں اپنی والدہ یا والد کے حوالے سے معلوم نہیں یا جن کے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہے، وہ بھی اپنی ایک پہچان بنا سکتے ہیں اور شناختی کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور کسی بھی دوسرے پاکستانی کی طرح ایک معزز شہری کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
Discussion about this post