انٹرنیشنل کرکٹ کونسل 2021 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھارت کے خلاف شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے لی گئی دو ابتدائی اور اہم ترین وکٹوں کو ڈیجیٹل آرٹ کے طور پر جاری کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ 24 اکتوبر کو دبئی میں شاہین نے پہلے روہیت شرما کو ایل بھی ڈبلیو کیا اور پھر اگلے ہی اوور میں کے ایل راہول جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی کو کلین بولڈ کردیا تھا۔ یہ دو وکٹیں بھارت پر بجلی بن کر گریں اور اسکے بعد بھارتی بیٹنگ لائن سنبھل نہ پائی، ان دو ڈیلیوریز کو سوشل میڈیا پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں دفعہ دیکھا جاچکا ہے۔ آئی سی سی کے مطابق حتمی منظوری کے بعد یہ مناظر فروخت کے لئے فیز ایپ پر جاری کئے جائیں گے جو کونسل کے فلیگ شپ مقابلوں سے جڑی این ایف ٹیز کی ڈیلنگ کے لئے استعمال ہونے والی ایپ ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ سری لنکن اسپنر وینندو ہسرنگا کی جنوبی افریقہ کے خلاف ہیٹ ٹرک بھی این ایف ٹی پر جاری کرنے کے حوالے سے زیر غور ہے۔ اس سے پہلے شعیب اختر اور وسیم اکرم سمیت دنیا بھر میں مختلف کھیلوں سے جڑے سلیبرٹیز آمدنی کے مقصد سے اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کی نیلامی کر چکے ہیں۔
Which of these moments should become an ICC NFT?
Collect legendary ICC moments soon at 👉https://t.co/7eOFPRlAnV pic.twitter.com/JZvpSaxweM
— ICC (@ICC) November 8, 2021
این ایف ٹی کیا ہے؟
این ایف ٹی دراصل نان فنجیبل ٹوکن سے بنا ہے۔ جس طرح بعض قیمتی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں لیکن ان کی ویلیو بہت زیادہ ہوتی ہے بلکل اسی طرح این ایف ٹی ایک خاص قسم کا ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی تصویر، ویڈیو اور آن لائن مواد کی بنیادی ملکیت کون رکھتا ہے۔ یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں کہ جسے کلو یا گز کے حساب سے ناپ طول کر اسکی ویلیو لگائی جائے بلکہ یہ ایک احساس ہے جو اپنی قدر کے حساب سے قیمت رکھتا ہے۔ بزنس کی زبان میں فنجیبل اثاثے سے مراد کوئی بھی ایسی جو فوری طور پر تبدیل کی جاسکے، جیسے ہزار کے نوٹ کے بدلے 5، 5 سو کے دونوٹ۔ البتہ بعض کیسز میں ہم ٹھوس اثاثوں کے لیے بھی این ایف ٹی جاری کر سکتے ہیں جو اس کے اصل ہونے کی مدلل گواہی کہی جاسکتی ہے۔ جو شخص این ایف ٹی خرید لیتا ہے اسکے بعد سے وہی اس کا اصل مالک تصور کیا جانے لگتا ہے۔
این ایف ٹی کے مقاصد؟
بنیادی کانسیپٹ یہ ہے کہ ڈیجیٹل آرٹ (تصاویر، ویڈیوز یا دیگر آن لائن مواد) کی نا تو کوئی نقل تیار ہوسکے اور نا ہی اس میں بغیر اجازت کسی بھی قسم کی تحریف ہوسکے۔ یوں سمجھ لیجئے جیسے یہ ایک قسم کی ڈیجیٹل آئی پی (انٹیلیکچوئل پراپرٹی) ہے۔ امریکہ میں کھیلوں کی مختلف لیگز نے اپنے کولیکٹیبلز یعنی کھیلوں کے سامان کو این ایف ٹیز میں تبدیل کیا اور لاکھوں ڈالر میں بیچا۔ ڈیجیٹل اثاثوں اور آن لائن مواد کو این ایف ٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ اصل مالکان یا فنکار اپنا کام اور اس کے جملۂ حقوق محفوظ رکھ سکیں۔
کرکٹ میں این ایف ٹی کیسے بنتی ہے؟
مثال کے طور پر جاوید میانداد شارجہ میں بھارتی بولر چیتن شرما کو مارے گئے اپنے مشہور چھکے کو آن لائن مواد قرار دے کر اسے این ایف ٹی مارکیٹ میں برائے فروخت کی پوسٹ کے ساتھ لگادیں تو اس وڈیو کے جملہ حقوق باآسانی کروڑوں روپے میں فروخت ہوسکتے ہیں، لیکن اسکے لئے انھیں اپنا مواد کسی این ایف ٹی مارکیٹ پر لگانا لازم ہے۔ اسی طرح سعید انور کی 194 رنز کی اننگز، شعیب اختر کے کلکتہ میں پھینکے گئے مشہور یارکرز، شاہد خان آفریدی کی 36 گیندوں میں تیز ترین سنچری کے مناظر، 92 ورلڈ کپ فائنل میں وسیم اکرم کی انگلینڈ کے خلاف مسلسل دو گیندوں پر وکٹیں، اور وقار یونس اور عاقب جاوید کی ہیٹرکس۔۔ یہ عظیم لمحے انتہائی قیمتی ہیں۔
پی سی بی ان یادگار لمحات کو ڈیجیٹل آرٹ کی شکل میں تاحیات محفوظ کرنے کے بعد این ایف ٹی مارکیٹ میں بیچ کر کثیر سرمایہ اکھٹا کرسکتا ہے۔ یہ تو بات ہوئی کرکٹرز کی، اگر ایک عام آدمی کے پاس ظہیر عباس کا بلا ہے، یا کسی نے عمران خان کی کوئی ٹی شرٹ سنبھال کر رکھی ہوئی ہے تو وہ بھی اسے این ایف ٹی مارکیٹ میں فروخت کےلئے لاسکتا ہے۔ یعنی پاکستانی کرکٹ فینز بھی اپنے پاس موجود منفرد تصاویر، ویڈیوز اور آرٹ ورکس کی باآسانی نیلامی کرسکتے ہیں یا ان کے جملۂ حقوق حصوں میں بانٹ کر ان کی ٹوکنائزیشن کر سکتے ہیں۔
اخلاقی جواز
عالمی شہرت یافتہ ٹینپ اور بائنانس جیسی این ایف ٹی ڈیلنگ کمپنیوں نے کرکٹ فینز کے ذریعے ڈیجیٹل آرٹ اور آن لائن مواد کی این ایف ٹی میں خرید و فروخت کو پاکستان میں متعارف کرایا لیکن پاکستان میں چونکہ ایک بہت بڑا طبقہ غربت کا شکار ہے تو این ایف ٹیز پر اخلاقی لحاظ سے سوالات اٹھنے لگے، جیسے بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کرکٹ کی شکل میں غریب کی ایک ہی تفریح ہے۔
این ایف ٹیز کی پاکستان میں قانونی حیثیت۔۔
اس بات کا خاص خیال رہے کہ کرپٹو کرنسی کی طرح این ایف ٹی کو بھی پاکستان میں ابھی تک غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا، ہاں البتہ یہ شعبہ گرے ایریا میں ضرور ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے تاحال ہوئی قانون سازی نہیں ہوسکی۔ حکومتی وزرا اور ادارے اس پر قانون سازی کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور اس حوالے سے کچھ ابتدائی میٹنگز کی شکل میں پیشرفت بھی ہوئی ہے۔
کیا پاکستانی این ایف ٹیز خرید سکتے ہیں؟
آپ اس حوالے سے سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو این ایف ٹی مارکیٹ سے جڑی ایپس اور ویب سائٹس کا بغور مطالعہ کریں، یوٹیوب پر ایکسپرٹ وڈیوز دیکھیں، اس کا مشاہدہ کریں کہ ماضی میں آکشن ہونے والی این ایف ٹیز کی کامیابی اور ناکامی میں کون سے عوامل کارفرما رہے۔
این ایف ٹیز سے کتنی کمائی ممکن ہے؟
دنیا کے مختلف ممالک میں بعض این ایف ٹیز اربوں ڈالرز میں فروخت ہوچکی ہیں۔ جیسے رواں سال اپریل میں ‘ڈیزاسٹر گرل’ نامی مزاحیہ میم کو این ایف ٹی کے ذریعے 473 ہزار ڈالرز فروخت کیا گیا۔ اسی طرح فروری میں نیان کیٹ نامی میم کی اصل تصویر پانچ لاکھ ڈالر میں بکی۔ گرنمز نامی موسیقار نے اپنی ڈیجیٹل آرٹ 60 لاکھ ڈالر میں بیچی۔ ٹوئٹر کے بانی جیک ڈورسی نے اپنی پہلی ٹویٹ کے عوض 29 لاکھ ڈالر وصول کئے۔ اور تو اور آکشن ہاوس کرسٹیز نے چھ کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے بدلے ڈیجیٹل آرٹ فروخت کر کے سب سے مہنگی این ایف ٹی بیچنے کا ریکارڈ بنایا۔
Discussion about this post