اسٹیٹ بینک آف پاکستان یعنی پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود میں 1.50 فیصد اضافہ کر دیا ہے ۔ یوں پہلے 7 اعشاریہ 25 پر رہنے والی سود کی شرح اب بڑھ کر 8 اعشاریہ 75 ہو گئی ہے۔ مرکزی بینک کے اس اقدام کی وجہ سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھنے اور پاکستانی معیشت کے مزید خراب ہونے کا خدشہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ سود کی شرح بڑھ جانے سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑے گا اور مہنگائی کیسے زیادہ ہو گی، اسکا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق حالیہ اقدام کے بعد صنعت کار،سرمایہ کار اور کاروباری حضرات کی کاروباری لاگت بڑھ جائے گی۔ جس شرح پر کاروباری افراد پہلے قرضہ لے رہے تھے اور اپنے کاروباری خسارے کو کنٹرول کر رہے تھے اب وہ اسی قرضے پر سود بڑھ جانے سے قرض کی رقم زیادہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے ۔ اس اضافی سود کی رقم عام آدمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا کر وصول کی جائے گی۔ کورونا اور دو سال کے جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری حضرات پہلے ہی کاروباری خسارے کا شکار ہیں اور انہیں کافی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ایسی صورت حال میں حکومت سے لیے گئے قرضے پر شرح سود بڑھنے کا بوجھ کاروباری شخص خود برداشت نہیں کرے گا بلکہ وہ یہ بوجھ عام آدمی پر ڈال کر خود بری ذمہ ہو جائے گا اور مہنگائی کم کرنے کے دعوے کرنے والی حکومت مہنگائی کے اس نئے طوفان کو نہیں روک پائے گی۔
شرح سود بڑھنے سے صرف عام آدمی کی زندگی ہی متاثر نہیں ہو گی بلکہ حکومت وقت بھی اس سے شدید متاثر ہو گی اور معیشت کو ایک ایسا زوردار جھٹکا لگے گااور پہلے سے سہارے پر کھڑی معیشت کے اب مکمل گر جانے کا خطرہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی معیشت کا انتظام سنبھالتے ہی 2018 میں شرح سود کو 6 اعشاریہ 5 سے بڑھا کر 13 اعشاریہ 25 کر دیا تھا جس سے پاکستانی معیشت اور عام آدمی بہت بری طرح متاثر ہوا تھا۔شرح سود میں اضافے کی وجہ سے حکومت کو ڈالر کی قیمت 125 سے بڑھا کر 166 روپے کرنی پڑی جس کی وجہ سے حکومت کا قرضہ بغیر قرض لیے ہی 4660 ارب روپے بڑھ گیا تھا۔ 2018 میں حکومت سنبھالتے وقت کی بات ہے جب پاکستانی معیشت پھر بھی اپنے پیروں پر کھڑی تھی لیکن آج تو حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ شرح سود بڑھانے کا مطلب ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے کا مطلب حکومت کا بغیر قرض لیے اپنے قرضے میں مزید اضافہ کرنا ہے۔اس طرح شرح سود میں اضافے سے یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم بھی بری طرح متاثر ہوگی۔
پاکستان میں آنے والے دنوں میں شرح سود میں مزید اضافے کی پیشگوئی بھی کی جارہی ہے۔اس صورتحال کی وجہ حکومتی فیصلوں میں کنفیوژن ہے اور حکومت کی پہلے سے بنائی گئیں غلط پالیسیز ہیں۔ شرح سود میں اضافے کی وجہ حکومت کا عالمی اداروں پر قرض کے لیئے انحصار بھی ہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت پاکستان کو قرض کی ادائیگی تعطل کا شکار ہے۔جس کی وجہ سے مہنگائی اور ڈالر کی قیمتیں مسلسل تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت پاکستان کی ٹیکس محصولات اور سالانہ خسارہ توقع سے زیادہ ہونے پر تشویش میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے پاکستان کی 6ارب ڈالر کی قسط روک رکھی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے اور وہ قسط حاصل کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا ہے تاکہ آئی ایم ایف کو دکھایا جا سکے کہ سالانہ خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔پاکستانی حکومت کا معیشت کے حوالے سے کیا گیا ہر فیصلہ عوام اور خاص طور پر عام آدمی کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔
Discussion about this post