سپریم کورٹ نے آئین کی شق 63اے کی تشریح کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کرلی ہے۔ فیصلہ محفوظ کرکے اب اسے آج شام میں سنایا جائے گا۔ ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی۔ آج ہونے والی سماعت میں نون لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے تحریری گزارشات جمع کرائیں۔ جس میں عدالت سے مہلت مانگی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں، انہیں موکل سے نئی ہدایات لینے کے کچھ وقت درکار ہے۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے مطابق دیکھنا ہوگا کہ کیا شق 63اے مکمل کوڈ ہے؟ اس میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرکے ووٹ شمار ہوگا، یہ پہلو بھی دیکھنا ہوگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس پر خاصی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ شق 17دو اور 63اے سیاسی جماعت کے حقوق کی تحفظ کی نشاندہی کرتا ہے۔ تکینکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔ اب صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ تیکنکی معاملہ نہیں بلکہ آئینی ہے۔ جس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملے پر رائے طلب کی جاسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق انحراف پر رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ شق 63اے میں ہے۔ جس کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں ہی آئیں گی۔ انحراف سے رکن خود بخود ڈی سیٹ نہیں ہوجاتا۔ انحراف پر شوکاز نوٹس کے تحت وضاحت مانگی جاتی ہے۔ سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو اس صورت میں ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
بشکریہ ٹوئٹر
جسٹس مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت نے 63اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی تجویز دی؟ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ سینیٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق انہیں اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ وہ اعتماد کا ووٹ نہیں حاصل کرپائے تو گھر چلے جائیں گے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی ملک کے وزیراعظم عمران خان ہی تھے۔ انہوں نے اپنے گزشتہ موقف سے قلابازی کھائی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ وزیراعظم کے لیے اپنی دی گئی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے؟ جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے۔وزیراعظم اپنے دیے گئے بیانات سے انحراف نہیں کرسکتے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد شق 62ون ایف کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ کیا انحراف کرکے ووٹ ڈالنے کا عمل شمار ہوگا؟ ان سوالات کے براہ راست جواب دیں۔ اٹارنی جنرل کے مطابق ماضی میں ایسے واقعات پر صدر نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت ماضی کے پس منظر میں بھی اس معاملے کو دیکھے۔جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق صدر کو صدارتی ریفرنس کیلئے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، صدر قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں، کیا اٹارنی جنرل صدر کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں؟ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ انہیں حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملیں، وہ عدالت کی معاونت کررہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد حکومت میں ہے۔ جس کے بعد صدارتی ریفرنس میں موقف ہوگا جو پہلے تھا۔ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ موجودہ حکومت کا بھی موقف ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ اُن کا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔ سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کیلئے ان کے وکلا ہیں۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ شق 63 اے کی پیروی سے شق 95 کیسے غیرموثر ہوگا؟ ایسی صورت میں صدرمملکت وزیراعظم کواعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر صدر اسی جماعت کا ہوجس کا وزیراعظم ہے ایسی صورت میں صدر اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق کیا ہارس ٹریڈنگ کے بغیر عدم اعتماد ہوسکتی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ایک سیاسی جماعت اپنے بنائے وزیراعظم کو ہٹا کر نیا لاسکتی ہے؟ عدالت نے تمام تر دلائل سننے کے بعد صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Discussion about this post