ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے کے چھاپے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ جس کے 5 صفحات کے حکم نامے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے لاہور اور مارگلہ پولیس کی ایف آئی آر سے واضح ہوتا ہے کہ چھاپہ غیرقانونی تھا۔ جوکہ غیرمتعلقہ افرادنے مارا، جنہیں اس کا اختیار نہیں تھا۔ اگر درخواست دی جائے تو اس حکم نامے کے ساتھ آئی جی پولیس اسلام آباد کو روانہ کی جائے۔ آئی جی اسلام آباد کو دی گئی درخواست ایس ایچ او کےخلاف کارروائی کیلئے بھجوائی جائے۔ عدالتی حکم کے مطابق ایس ایچ او کو واقعے سے متعلق مبینہ زیر حراست شخص کی درخواست پر کارروائی کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ حکم نامے کے مطابق مبینہ زیر حراست شخص کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔جہاں سے اُسے 3 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے۔
متعلقہ شخص اے ٹی سی کی جوڈیشل تحویل میں ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت، مقدمے کے میرٹس کا تعین کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ عدالت کے مطابق ایف آئی آر 9 بجے درج کی گئی۔ کسی محلے دار کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا۔ پولیس محسن بیگ کا بیان ریکارڈ کرکے قانونی کارروائی کرے۔ محسن بیگ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر نو بجے ہوئی، چھاپہ ساڑھے آٹھ بجے مارا گیا۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق محسن بیگ کی گرفتاری وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے درج ایف آئی آر کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ محسن بیگ نے ٹی وی پروگرام میں توہین آمیز ریمارکس دیے۔اُن کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش بھی کی۔ محسن بیگ کے خلاف یہ مقدمہ سائبر کرئم ونگ لاہور میں درج کیا گیا۔
اُدھر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ عدالت سے سرچ اینڈ سیز وارنٹ حاصل کیے گئے۔چھاپے کے دوران ملزم محسن بیگ، بیٹے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پر سیدھی فائرنگ کی۔ 2 افسران کو یرغمال بنا کر تشدد کیا۔
Discussion about this post