بزرگ فلسطینی جہاد بٹو جب کم عمری میں تھیں تووہ اسکول سے بے دخل ہوگئیں۔ جہاد بٹو 1936 میں فلسطینی مغربی کنارے کے شہر نابلس میں پیدا ہوئیں۔ اسرائیلی قابض فوج کے خلاف مزاحمت کی تحریک کے پیش نظر اُن کا نام ’جہاد‘ رکھا گیا۔ 10برس کی تھیں تو اسرائیلی فوجوں نے گھروں،قصبوں اور اسکولز پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ بس اسی بنا پر جہاد بٹو کا تعلیمی سفر ادھورا رہ گیا۔ 1954 میں جہاد نے شادی کی اوراس وقت وہ 5 بچوں کی والدہ ہیں۔ مطالعہ اور سیکھنے کا شوق ختم نہیں ہوا جبھی انہوں نے عربی، انگریزی اور عبرانی کے علاوہ کئی زبانوں کے کورسز کے ساتھ ساتھ ریاضی کے کورسز بھی کیے۔ کوئی 81 سال کی عمر میں، بوڑھی فلسطینی خاتون پڑھائی کے لیے اب بھی جوش سے بھری ہوئی تھی۔ جنہوں نے یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے اور گریجویشن کا لباس پہننے کے لیے کالج میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔جہاد نے دن و رات ایک کرکے سخت اور طویل گھنٹوں تک پڑھائی کی اور پھر 85 سال کی عمر میں جہاد نے اسلامی شریعت میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرکے اور گریجویشن کا لباس پہن کر اپنے خواب کو سچ ہوتے دیکھا۔اب ان کا عزم ہے وہ کم تعلیم یافتہ افراد کو پڑھائیں گی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اتنا پڑھنے کے بعد اگر وہ کسی کو یہ ہنر منتقل نہ کریں تو کیا فائدہ ایسی تعلیم کا۔ اب سوشل میڈیا پر جہاد بٹو کی تصویر وائرل ہوچکی ہے، جس پر صارفین یہی پیغام دے رہے ہیں کہ 85برس کی خاتون نے دنیا کو بتایا ہے کہ فلسطین روزانہ کی ناقابل یقین مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بہت زیادہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔
Discussion about this post