وزیراعظم عمران خان نے پیر 9 اگست کو لاہور میں میاواکی اربن فارسٹ کاافتتا ح اور سگیاں پر میواکی درخت لگانے کی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا ہے۔ وزیراعظم کی یہ مہم ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ کا حصہ ہے۔ جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی کے برے اثرات سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جارہے ہیں۔
لاہور میں میاواکی کا سفر
پارک اتھارٹی نے لاہور میں فروری 2021میں کھوئی ہوئی ہریالی کو بحال کرنے کے لیے شہر بھر میں میاواکی جنگلات کا جال بچھایا۔ ان جنگلات میں مختلف دیسی طرز کے درخت لگا کر ماحولیاتی تبدیلی کی جانب ایک حیر ت انگیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔ میاواکی جنگلات میں درختوں کی نشونما لاجواب ہے اور صرف 4 مہینے کے قلیل عرصے میں لاہور میاواکی کی سائٹ پر لگائے گئے پودوں کی افزائش میں حیرت انگیز رفتار دیکھی گئی۔
پی ایچ اے لاہور نے گزشتہ 3 برسوں میں وزیراعظم کی ’ کلین اینڈ گرین مہم‘ کے تحت لاہور شہر میں 10 لاکھ سے زائد پودے لگا کر ریکارڈ شجر کاری کی۔ اب پی ایچ اے لاہور کے گھروں میں بھی میاواکی طرز کے درخت لگا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں سگیاں کے قریب چائنا پارک میں 100کنال اراضی پر 1 لاکھ 60درخت لگا کر عالمی ریکارڈ بنایا جارہا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور اربن فارسٹری کے تحت سگیاں میں لگنے والا 100 کنال پر محیط ایشیا کا سب سے بڑا میاواکی جنگل بھی قائم کیا گیا ہے۔ جہاں یہ لگنے والے پودے تین سے پانچ سال کے عرصہ میں تناور درخت بن جائیں گے۔
پی ایچ اے کا عزم
ڈی جی پی ایچ اے جاوید احمد قریشی کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایت کے مطابق فرور ی میں لاہور میں 51 میاواکی سائٹ فراہم کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں کچھ بڑے منصوبوں پر بھی کام کی پلاننگ کی گئی ہے۔ چونکہ لاہور راوی کے کنارے پر ہے، اسی لیے ایک لاکھ 60 ہزار پودے یہاں لگائے جا رہے ہیں، جو ماحول کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوں گے۔ ہمارا عزم یہ ہے کہ ’کلین گرین پنجاب‘ کے تحت رواں سال کے اختتام تک مزید 5لاکھ 20ہزار پودے لگائے جائیں۔
میاواکی جنگلات کیا ہوتے ہیں؟
جاپانی ماہر نباتات اکیرا میاواکی نے کم و بیش 60برس کی تحقیق کے بعد تیزی سے درخت لگانے کا طریقہ متعارف کرایا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب انہی کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس طریقے سے انتہائی تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ کم وقت میں قلیل اراضی پر گھنے جنگل کا جال بچھایا جاسکتا ہے۔ یعنی عام زبان میں یہ سمجھا جائے کہ پودے کے درخت بننے کے انتظار میں برسوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے مقامی پودوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ جہاں جنگل بسانا ہوتا ہے، وہاں زمین پر کوئی کیمیائی کھاد یا کیمیکل نہیں ڈالی جاتی بلکہ علاقائی کھاد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد ان پودوں کو جنگل کی ترتیب کے ساتھ اگایا جاتا ہے۔
ان پودوں کو پانی کی فراہمی 3 سال کے لیے کی جاتی ہے، جس کے بعد یہ خود بخود اپنی افزائش کرتے ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ مکمل طور پر جنگل کا سماں پیش کرتا ہے،جہاں پرندوں اور حشرات کی بھرمار بھی ہوتی ہے۔
میاواکی جنگلا ت کا فائدہ
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ درخت30گنا زیادہ آکسیجن دیتے ہیں اور 30گنا زیادہ کار بن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب کرتے ہیں۔ ایک خوبی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ہوا میں گردش کرنے والی الرجی کو بھی یہ درخت جذب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جس سے پرفضا اور صحت مند ماحول تشکیل پاتا ہے۔
کراچی میں میاواکی کا تجربہ
میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ کراچی میں یہ تجربہ کچھ برس پہلے بھارتی میاواکی کے ماہر کی مدد سے کیا گیا تھا۔ مقامی ماحولیاتی تنظیم نے شہر کے پارک میں 5سال کے لیے 500مربع فٹ کی اراضی پر جنوری 2016میں پودے لگانے کا تجربہ کیا تھا، ان میں سے کچھ اس وقت تناور درخت کا روپ دھار چکے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ اب تک یہ منصوبہ جاپان، چین، کینیا، امریکہ، ملائیشیا، برازیل، بھارت، تھائی لینڈ، عمان، سعودی عرب اور ہوائی میں کامیابی سے استعمال کیا جاچکا ہے۔
Discussion about this post