اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسجد نبوی ﷺ واقعے پر درج مقدمات کے خلاف سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے فواد چوہدری، شہباز گل اور قاسم سوری کی درخواستوں کو اکٹھا کرکے سنا۔ پی ٹی آئی رہنما اور وکیل فواد چوہدری نے دلائل دیے کہ آج تک کسی حکومت نے توہین مذہب کے قوانین کا اس طرح استعمال نہیں کیا۔ کہیں اس کا مقصد فساد تو برپا نہیں کرنا۔ ایسے مقدمات سے امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ توہین مذہب کے قوانین کا سیاسی استعمال کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ فواد چوہدری کو اس بینچ پر اعتماد ہے؟ جس کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بالکل، عدالت پر اعتماد نہیں ہوگا تو کس پر ہوگا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کرنا واقعی درست نہیں۔سیاسی جماعتوں اور لیڈرشپ کو چاہیے کہ برداشت کو ترجیح دیں۔ جو مقدمات درج ہوئے وہ درست نہیں۔ ماضی میں ریاست نے ایسی حرکتیں کیں۔ جس کی وجہ سے بہت سارے معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اسلام آباد پولیس مسجد نبوی ﷺ واقعے کے تناظر میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین مذہب مقدمات درج نہ کرے۔ ان کے مطابق ریاست کا کام ہے یقینی بنائے کہ مذہبی استحصال نہ ہو۔
Discussion about this post