لگ بھگ ایک ماہ پہلے 12سال کے احمد سعید نصیر نے والدین کو بتایا کہ وہ ایک سائیکل خرید کر اُن افراد تک کتابیں پہنچانا چاہتا ہے جو یا تو انہیں خریدنا چاہتے ہیں یا پھر کرائے پرحاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بے شمار گیجٹس کے اس دور میں والدین کے لیے احمد سعید نصیر کی خواہش کچھ انوکھی تھی۔ عام طور پر اس عمر کے بچے اسمارٹ فون یا پھر دیگر گیجٹس میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں۔ والدین نے اس نیک مقصد میں احمد سعید نصیر کی ہر ممکن مدد کی ۔ اس دوران مصری بچے نے آس پاس کی سرکاری اور نجی لائبریوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے مشن کے بارے میں بتایا۔ وہ چاہتا تھا کہ مطالعہ کے شوقین افراد کے گھر پر ہی ان کی یہ پیاس بجھائی جائے۔
کتب خانوں نے احمد سعید نصیرکے اس نیک کام میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ دوسری جانب احمد سعید کی والدہ نے اکٹھی ہونے والی کتابوں کی تصاویر اتار کر انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کیا۔ جس میں صارفین سے کہا گیا کہ اگر وہ متعلقہ کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کے پاس پہنچ جائیں گی۔ واضح کیا گیا کہ مقصد مالی منافع نہیں بلکہ مطالعے کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ جس کے بعد احمد سعید کے پاس کتابوں کے رسیا ؤں کی درخواستیں آنے لگیں۔ اب اسکول کے بعد یہ 12برس کا بچہ سائیکل پر کتابیں بیگ میں لاد کر ان کے مانگنے والوں کی چوکھٹ پر پہنچتا ہے۔
Discussion about this post