فن اداکاری کا ایک اور چمکتا دمکتا ستارہ غروب ہوگیا ۔ مسعود اختر کے ساتھ ہی ایک عہد تمام ہوا، مسعود اختر ایک ایسے فن کار جنہوں نے کم لیکن معیاری کام کے ذریعے دلوں میں جگہ بنائی، 60 کی دہائی میں فنی سفر کا آغاز ہوا ۔ اور پہلی فلم سنگدل 1968 میں آئی ۔ جس میں ان کے مدمقابل ندیم تھے لیکن مسعود اختر نے کمال کی اداکاری دکھائی، جس کے بعد ان کا فلمی سفر ایک نئے دور میں داخل ہوا ۔ کبھی سائیڈ ہیرو تو کبھی سولو ہیرو کے طور پر اسکرین پر جلوہ گر ہوئے، فلم ہی نہیں اسٹیج اور پھر ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
ٹی وی ڈراموں میں وہ سوبر قسم کے کردار ادا کرتے لیکن ان میں مسعود اختر کا فن اپنے عروج پر رہا ۔ وہ مکالمات کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات کا استعمال بہترین انداز میں کرتے، بدقسمتی سے چند برسوں پہلے ان کے جواں سال بیٹے پھیپڑوں کے کینسر سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے تو اُن پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا، دھیرے دھیرے فنی دنیا سے دور ہوتے گئے۔ 2005 میں حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں پرائیڈ آف دی پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
مسعود اختر نے لگ بھگ ایک سو پینتس فلموں میں اداکاری دکھائی ۔ اسی طرح ٹی وی ڈراموں کی تعداد بھی کچھ اتنی ہی ہے، وہ گزشتہ کئی مہینوں سے خود پیپھڑوں کے کینسر کی جنگ لڑ رہے تھے اور پھر ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ مسعود اختر آخری بار گلوکار علی ظفر کے ویڈیو گیت میں نظر آئے۔
Discussion about this post