گیارہ ستمبر 2001 ۔۔۔ وہ خوف ناک اور لرزہ خیز دن جب نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہی نہیں وہ 2 طیارے گرے تھے بلکہ پوری دنیا کے سیاسی ، معاشی ، داخلی استحکام پر ان کا ملبہ گرا۔ ان کے علاوہ 2 اور طیارے اس تباہی میں اہم کردار ادا کرگئے ۔ کون بھول سکتا ہے وہ گرتا ہوا ورلڈ ٹریڈ سینٹر ۔۔ جو آج بھی ذہن پر نقش ہے ۔ جس سے پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت نے خوف کی فضا کو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ لگ بھگ 3 ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور وہ ہلاکتیں آئندہ آنے والی ان گنت ہلاکتوں کے لیے پیشہ خیمہ ثابت ہوئیں ۔ دنیا اس سانحے کو نائن الیون کے نام سے جانتی ہے ، وہ 4 جہاز جو امریکی سرزمین پر گرے تھے انہوں نے یکدم اسلام کے بارے میں اقوام عالم کا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ ذمے دار القاعدہ کو ٹھہرائی گئی جس کو تحفظ مبینہ طور پر افغان طالبان حکومت کررہی تھی ۔
امریکا کا مطالبہ
امریکا نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی حوالگی کا افغان طالبان سے مطالبہ کیا ۔ طالبان کے انکار پر اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے قانون منظور کرایا ، جس کےتحت امریکا جہاں ضروری سمجھتا اپنی عوام اور ملک کے تحفظ کے لیے طاقت کا بھرپور استعمال کرسکتا تھا ۔ افغان طالبان کے مسلسل انکار کے بعد امریکا نے 7 اکتوبر 2001کو آپریشن انڈورینگ فریڈم کے نام سے افغانستان پر حملہ کردیا ۔ امریکا کا بھرپور ساتھ اتحادی فوج نیٹو نے بھی دیا ۔ امریکا نے اسے ” وار آن ٹیرر ” کا نام دیا ۔ پاکستان بھی ماضی کی طرح امریکا اتحادی بنا۔ طالبان کی حکومت گرادی گئی اور حامد کرزئی کو 2002میں افغانستان کا صدر بنادیا گیا ۔ شمالی اتحاد جو کہ طالبان کے شدید حریف تھے انہیں امریکا نے بھرپور تعاون سے نوازا ۔
نائن الیون کے پاکستان پر اثرات
کیونکہ طالبان کی حکومت گر چکی تھی اور اس کے بہت سارے قائدین کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش میں تھے جہاں ان کو تحفظ مل سکے ۔انہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بہتر جگہ نہ مل سکی ۔ پاکستان میں شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے باقاعدہ آپریشن شروع ہوا ۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کی لہر پورے پاکستان میں پھیل گئی ۔ ساتھ ساتھ امریکا نے ڈرون اٹیکس کو پاکستانی حدود میں جاری اور ساری رکھا ۔ جس پر مختلف فریقین کی جانب سے اختلافات سامنے آئے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی لہر پاکستان میں آئی، جس کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانیوں نے جان کی قربانی دی ۔ فوجی جوان سے لے کر ایک عام انسان تک سب نے اس جنگ کا خمیازہ بھگتتا ۔
امریکا بہت سارے مقاصد پاچکا تھا ۔جس میں ایک حد تک القاعدہ کو کمزور اور افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت سے بہت سارے مقاصد کی تکمیل بھی کراچکا تھا ۔ مگر دہشت گردی کی لہر پورے خطے میں پھیلتی چلی گئی ، جس کی وجہ سے پاکستانی فوجی قیادت نے بہت سارے ملڑی آپریشن کا اغاز کیا ۔ اس کی ایک مثال 2009 میں آپریشن راہ راست ، جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سوات کی سرزمین پر کیا گیا ۔ پاکستان کی بھرپورکارروائیوں کے باوجود ہر امریکی حکومت پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتی رہی ۔
امریکا کا ایکشن
دو مئی 2011کو اُس وقت سب حیرت میں رہ گئے کہ جب براک اوبامہ نے اعلان کیا کہ امریکی فوج نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مبینہ طور پر پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران مار ڈالا ۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اب القاعدہ کا خاتمہ ہوگیا ۔ واشنگٹن نے اس جانب بھی اشارہ دیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور منتخب حکومت کے قیام کے بعد وہ بہت جلد اپنی افواج کا انخلا شروع کردے گا ۔ اُدھر امریکی دعوؤں کےبرعکس طالبان کی طاقت ماند نہیں پڑی ۔
افغان مفاہمتی عمل کا آغاز
اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں نئے دور کا آغاز ہوا ۔ لیکن اسی دوران طالبان کا اثر و رسوخ پھر بڑھنے لگا ۔ دوسری جانب نئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب امریکا افغانستان میں اپنی افواج کو رکھ کر مزید خزانے پر بوجھ نہیں ڈالے گا ۔ اسی لیے مکمل طور پر انخلا کے لیے تیار ہے ۔ اسی دوران پاکستان کی سفارتی کوششوں سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا ۔ 2019 میں افغان مفاہتمی عمل کا آغاز ہوا ۔
طالبان صاف اور شفاف الیکشن چاہتے تھے لیکن اشرف غنی تیار نہیں ۔ اور پھر اشرف غنی کی یہی مزاحمت ان کے اقتدار کی محرومی کا باعث بنی ۔ امریکا نے 31 اگست تک تمام فوجیوں کو واپس بلانے کا فرمان جاری کیا ، جس کے نتیجے میں طالبان کی پیش قدمیاں اور بڑھنے لگیں اور پھر 15 اگست کو طالبان نے مکمل طور پر کابل سمیت پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا ۔ اشرف غنی فرار ہوگئے ۔ اب افغانستان پر طالبان کی حکمرانی ہے ۔
کیا دنیا اب محفوظ ہے ؟
نائن الیون کے 20 سال بعد اب دنیا بدل چکی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہے اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے ۔ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں فوائد حاصل کرلیے لیکن جواب اگر ناں ہے تو اس کا ذمے دار کس کو ٹھہرایا جائے؟
Discussion about this post