سرکلر ڈیبٹ ۔ بجلی کا ہر صارف اس لفظ سے آشنا ہے۔ جب بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے یا ملک میں مہنگی بجلی پر بات ہوتی ہے تو یہی وہ نقطہ جہاں پر تمام گفتگو ختم ہو جاتی ہے۔ آخر یہ ہے کیا بلا ؟ جیسا کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ قرضہ جو گردش کررہا ہے سرکلر ڈیبٹ یا سرکولیٹ کرنے والا قرضہ۔ سال 2007 سے ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا آغاز ہوا۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روپے کی بے قدری بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنی۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا غیر مقبول فیصلہ کرنے کے بجائے اس کا بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور عوام کیلئے بجلی کی قیمت نہ بڑھائی۔ شارٹ فال، ریکوری نہ ہونا اوردیگر عوامل نے توانائی کے شعبے میں لاگت اور ریکوری کی خلیج وسیع کردی۔
گردشی قرضے کے عوامل اورمحرکات
یہ تو ہوگیا گردشی قرضے کا پس منظر اب اصل معاملے کی طرف آتے ہیں کہ آخر یہ گردشی قرضہ ہے کیا اورکون سے اہم عوامل ہیں اس کے پیچھے۔چار بنیادی فیکٹرز یا فریقین ہیں ۔۔ آئل مارکیٹننگ کمپنیز، جینکوز ،سینٹرل پاورپرچیزنگ ایجنسی اور ڈسکوز ۔
جینکوز جو پاکستان میں بجلی کی پیدواری کمپنیاں ہیں۔ یہ پاور جنریشن کمپنیاں تیل سپلائی کرنے والے اداروں یعنی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے تیل خریدتی اور پھر بجلی پیدا کرکے اسے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو فروخت کردیتی ۔سی پی اے یا سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی پھراس بجلی کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ڈسکوز کو فراہم کرتی ہیں جو صارفین تک بجلی کی فراہمی اور بلوں کی صورت میں قیمت میں وصول کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں سے مراد یہ ہے کہ جتنی مالیت کی بجلی پیدا کر کے فروخت ہو رہی ہے اتنی مالیت کی وصولی نہیں ہو رہی۔
بجلی کے استعمال اورریکوری میں فرق
پاکستان میں بجلی کی چوری، بجلی کی ترسیل کا پرانا اور بوسیدہ نظام اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ناقص کارکردگی یہ وہ وجوہات جن کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے لاگت پوری نہیں ہو رہی ہے۔پاکستان میں زیادہ تر بجلی نجی شعبے کے پاور پلانٹس پیدا کر رہے ہیں جسے حکومت خریدتی اور آئیسکو، لیسکو اور کے الیکٹرک سمیت مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعے صارفین کو فراہم کرتی ہے۔جب یہ کمپنیاں صارفین سے بل وصول نہیں کر پاتی تو حکومت کے لیے پاور پلانٹس کو رقم ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے اور سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضا بڑھتا جاتا ہے۔پاور پلانٹس کو رقم نہیں ملتی تو پھر وہ پی ایس او سمیت دیگر فرنس آئل درامد کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر پاتی اور پھر آئل کمپنیوں کے پاس رقم نہیں ہوتی وہ بیرون ممالک سے تیل نہیں خرید پاتی۔اس طرح یہ قرضہ ایک سے دوسری اور دوسرے سے تیسرے فریق میں گھومتا رہتا ہے۔
گردشی قرضے میں اضافہ اورحکومت کا کردار
بجلی کی لاگت اور بجلی کے بلوں سے ہونے والی آمدن کم ہو تو پھر وہ فرق کوئی نہ کوئی تو پورا کرے گا۔ایسے میں حکومت اکثر اوقات سرکاری خزانہ سے یہ رقم پاور پلانٹس کو ادا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے قرض لیتی ہے۔مسئلہ شروع کہاں سے ہوا ۔80ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اور 90ء کے اوائل میں حکومت غیرملکی سرمایہ کاروں کو انرجی سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے پالیسیاں بنا رہی تھی،اسی دور میں حب پاور کمپنی بنی جو پاکستان میں نجی طور پر بجلی پیدا کرنے والی پہلی کمپنی تھی، حب پاور میں بجلی پیدا کرنے والی یورپی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی۔حب پاور کمپنی کے بعد پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے مزید نجی پلانٹس لگائے گئے لیکن انہیں چلانے کیلئے فرنس آئل کا انتخاب کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو جلدی چلایا اور بند کیا جا سکتا ہے اس کے برعکس کوئلے یا گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس چلنے اور بند ہونے میں زیادہ وقت لیتے ہیں اور مسلسل چلتے رہنے پر ہی بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔یہی فیصلہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور ہم اس موڑ پر غلط سمت آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔
حکومت کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ غیر متوقع نہیں تھا، بدلتے حقائق کے ساتھ حکومت نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی، پاکستان تیل درآمد کرتا ہے اس لیے کافی مہنگا پڑتا ہے۔پھر اسکی قیمت بھی غیر مستحکم رہتی ہے، امریکی ڈالر کی قدر میں اتار چڑھائو بھی تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود 2002ء کی آئی پی پیز پالیسی کے تحت حکومت نے ملک میں تین ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کیلئے پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے دی جن میں سے اکثر تیل پر چلنے والے تھے۔یوں جس تباہی کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ آن پہنچی، بجلی کی پیداواری لاگت یعنی کاسٹ آف پاور جنریشن تیزی سے اوپر چلی گئی لیکن حکومت نے یہ پیداواری لاگت براہ راست صارفین سے وصول کرنے کی بجائے انہیں سبسڈی دے دی، یہی سے سرکلر ڈیبٹ یعنی گردشی قرضے کا وبال کھڑا ہوا۔
پاکستان کے پاورجنریشن سیکٹر کے مسائل
گردشی قرضہ ایک پیچیدہ چیز ہے اور یہ مزید پیچیدہ تب ہو جاتا ہے جب فیول مہنگا ہونے سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اس کی اصل وجہ تو بجلی چوری اور حکومت کی اس چوری کو روکنے میں ناکامی ہے۔ بجلی چوری پاکستان کا عشروں پرانا مسئلہ ہے۔جب بجلی کی پیداواری لاگت ڈرامائی طور پر اوپر جاتی ہے اور اس کے اثرات سے صارفین کو محفوظ رکھنے کیلئے حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی اُس رفتار سے نہیں بڑھتی تو اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے۔بجلی چوری سے ہونے والا نقصان اور پیداواری لاگت کے مکمل اخراجات صارف سے وصول نہ کرنے کی صورت میں تقسیم کار یا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ادائیگیوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے سبسڈی کی رقم ادا کرنے میں تاخیر اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہے۔اگر ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی بجلی چوری کی وجہ سے اپنے صارفین سے پاور جنریشن کاسٹ یعنی پیداواری لاگت وصول نہیں کرے گی تو وہ پاور ٹرانسمشن کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر سکتی جو آگے پاور جنریشن کمپنیوں کو ادائیگی کرنے کے قابل نہیں ہوں گی، پاور جنریشن کمپنیاں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو، آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ریفائنریز کو اور ریفائنریز آگے آئل اینڈ گیس پروڈکشن کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر سکیں گی۔ اسی کو ہم گردشی قرضہ کہتے ہیں، یہ سرکلر اس لیے ہے کیونکہ زیادہ تر انرجی سپلائی چین حکومت کی ملکیت میں ہے اور حکومت کی جانب سے وقت پر سبسڈیز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کمپنیاں ڈیویڈنڈ کی ادائیگی کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
کراچی کے کے علاوہ ملک بھر میں تمام صارفین کو بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار تقسیم کار کمپنیاں حکومت کی ملکیت ہیں ۔لہذا بجلی کے لائن لاسز اوربلوں کی مد میں وصولی نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت پرعائد ہوتی ہے اور یہاں آکر حکومت بے بس ہوجاتی ہے۔۔جس کا خمیازہ عوام کو لوڈشیڈنگ ،بجلی کے بڑھتے نرخ اورمعیشت پر سرکلر ڈیبٹ کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
Discussion about this post