لاہور کے علاقے کاہنہ میں پب جی گیم نگل گیا پورا خاندان،18 سال کے نوجوان نے لکھی خونی داستان جس کی زد میں آئی اس کی ڈاکٹر ماں، 2 کم سن بہنیں اور ایک بھائی، جن سے علی زین نے جینے کا حق چھین لیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق پب جی نہ کھیلنے پر خون میں نہلانے والے علی زین کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملک عبدالقیوم کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں نوجوان نے اعتراف کیا کہ اُس نے ہی پورے خاندان کا قتل کیا ہے۔ علی زین کا کہنا تھا کہ 18 اور 19 جنوری کو وہ رات میں اٹھا اور والدہ ڈاکٹر ناہید مبارک کی الماری سے 30 بور کا پستول نکالا لیکن اس سے قبل اس ساری سفاکی سے پہلے وہ پب جی گیم ہی کھیل رہا تھا، جس کا ایک ایک منظر اس کے دل و دماغ پر سوار تھا۔ اس کے مطابق اس آن لائن گیم کی طرح وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ گھر والوں کو اگر وہ مارے گا تو وہ زندہ ہوجائیں گے، اسی لیے اُس نے بہنوں ، بڑے بھائی اور پھر والدہ کو موت کی نیند سلادیا۔ 18 برس کے علی زین کے اعتراف جرم کے بعد اسے 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چند دنوں پہلے علی زین نے صرف اس لیے اپنے خاندان کے خون سے ہولی کھیلی تھی کیونکہ والدہ اسے پب جی کھیلنے سے منع کرتی تھیں۔ اور بار بار کی روک ٹوک سے نجات پانے کے لیے اس نوجوان نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ دوسری جانب پنجاب پولیس نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس خونی آن لائن گیم پب جی پر مکمل پابندی لگائیں جس کی وجہ سے اب تک کئی نوجوان اپنی اور خونی رشتوں کی جانیں لے چکے ہیں۔
Discussion about this post