پیسے کی کشش ہر کسی کو مجبور کرتی ہے کہ اسے کسی طرح سے چھپا کر رکھا جائے، اگر دولت عیاں ہوجائے سب کے سامنے تو بہت سارے مالی ضوابط کے تحت تطہیری عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایک ریاست کا حق ہے کہ اسے اس بات کا علم ہو کہ اُس کی رعایا میں کون کتنا پیسہ کما رہا ہے۔ مالیاتی اداروں کا حق ہے کہ وہ جب وہ چاہیں، سوائے بے گناہ انسان، ہر شخص کی جانچ پڑتال کریں۔ جن کے بارے میں گمان ہو کہ انہوں نے غلط طریقے سے پیسے کمائے ہیں، البتہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمیشہ سے قانون صرف گھر کی کنیز سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس قانون کو صرف غریب کونچوڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایسے قوانین بنا دیے جاتے ہیں جو طاقت ور لوگوں کے لیے بآسانی راستہ بنائیں۔ یہ پرانی روش اتوار کو پھر سے دہرا دی گئی۔ جو اپنی رعایا کو ہمیشہ سے اس بات کا لیکچر دیتے ہیں کہ حلال کمائیں، ملک کے اندر کمائیں، سرمایہ اپنے ملک میں لگائیں، وہی لوگ سب سے زیادہ قانون کی خلاف ورزی میں آگے آگے ہیں۔ یہ افراد کون ہیں، جو پارسائی کے دعوے خود تو کرتے ہیں مگر جب ان کی حقیقت عیاں ہوتی ہے تو یہ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں،مسلط اشرافیہ۔ وہ اشرافیہ جس میں سیاسی، کاروباری حضرات کا ایک چھپا ہوا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ وہ سامنے ایک دوسرے کے خلاف ایسے لڑیں گے، جیسے کوئی ذاتی دشمنی ہو لیکن پس پردہ ہاتھ ایسے تھامیں گے، جیسے کوئی بہت ہی پرانا یارانہ ہو، اسی اشرافیہ کے لیے پھر سے رسوائی کا وقت ہے کیونکہ ’پانامہ پیپرز‘ سے بھی بڑا اور زیادہ پراثر ’پینڈورا پیپرز‘ سامنے آچکا ہے۔ یہ ’پینڈورا پیپرز‘ دنیا بھر کے تحقیقاتی صحافیوں کی محنت کا ثمر ہے، جنہوں نے دو سال انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیوٹیو جنرنلسٹ آورگنائزیشن کے تحت بہت سارے کاغذات کو چھان کر ہمارے سامنے بہت سارے لوگوں کے چہروں کی پارسائی کے نقاب گرادیے ہیں۔ ایک کروڑ19 لاکھ سے زیادہ کاغذات کے دستاویزات پر مبنی اس مالیاتی اسکینڈل کو ’پانامہ‘ کی طرز سے بھی زیادہ بڑا گردانا جارہا ہے۔ سیاست دانوں سے لے کر کاروباری شخصیات کے نام عیاں ہوئے ہیں۔کیسے انہوں نے اپنی دولت کو سب سے چھپا کر رکھا ہے۔
کون کون سی پاکستانی شخصیات شامل ہیں؟
اس اسکینڈل میں 700سے زیادہ پاکستانیوں کے نام ہیں اور ان میں سر فہرست وزیراعظم عمران خان کے کابینہ کے ساتھی، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا نام ہے۔ جو دوسروں کو باور کراتے ہیں کہ آئیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کریں لیکن خود اُن کے فرزند باہر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈ کا نام بھی اس ’پینڈورا پیپرز‘ میں آیا ہے۔ اسی طرح سابق مشیر برائے خزانہ وقار مسعود کے بیٹے کا نام بھی نمایاں ہے۔ اتحادی جماعتوں سے مونس الہی جو سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے بیٹے ہیں اور وفاقی وزیر بھی ہیں، وہ بھی اس اسکینڈل کی زد میں ہیں۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار کا نام بھی پھر سے سرخیوں کی زینت بنا ہے۔ یاد رہے کہ عمر بختیار کا نام پہلے شوگر اسکینڈل میں بھی آچکا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک اور پنجاب کے بزدار کابینہ کے وزیر علیم خان کا بھی نام ’پینڈورا پیپرز‘ میں اُن کے لیے وجہ پریشانی ہے۔ علیم خان کے اوپر نیب کے مختلف کیسز بھی ہیں۔
دوسری جانب شرجیل انعام میمن جو پی پی کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات رہے ہیں، اُنکے نام پر بھی آف شور اکاؤنٹ ظاہر ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کا نام پھر سے اُن کے والد کے لیے ہزیمت کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری جانب لیکوڈڈ ابراج گروپ کے سابق سی ای او عارف نقوی جنہوں نے ابراج کے سرمایہ کاروں کے ساتھ مبینہ جعل سازی کی تھی اور برطانیہ میں کیس بھگتنے کے بعد جنہیں امریکا بدر کیا گیا تھا۔ اُن کا نام بھی ’پینڈورا پیپرز‘ میں شامل ہے۔ اسی ابراج گروپ نے کے الیکٹرک میں سرمایہ کاری کی تھی۔ ” پینڈورا پیپرز ” میں جہاں سیاست دان ، ارکان اسمبلی اور بزنس مین کے نام شامل ہیں ، وہیں کچھ حاضر اور سابق عسکری عہدیداروں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔
میڈیا مالکان بھی ’پینڈورا پیپرز‘ میں شامل
میڈیا مالکان جس میں جنگ گروپ کے پبلشر میر شکیل الرحمان، ایکسپرس میڈیا گروپ کے مالک سلطان لاکھانی، ڈان گروپ کے حمید ہارون، بول کے شعیب شیخ اور گورمے گروپ کے مالکان جو ایک نجی چینل کو بھی چلاتے ہیں وہ بھی اس بار خبر بنے ہیں۔
عالمی شخصیات اور حکمرانوں کے نام بھی’پینڈور پیپرز‘ کا حصہ
مشہور بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر کا بھی نام اس فہرست میں ہے۔ ساتھ ساتھ بھارتی بزنس مین انیل امبانی بھی ہوئے ہیں پھر سے بے نقاب۔اردن کے بادشاہ، قطر، متحدہ عرب عمارات کے شاہی خاندان کے افراد، کینیا، یوکرین، چیک ری پبلک، ایکوئڈر کے سیاسی افراد سے وزیر اعظم اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کے نام بھی شامل ہیں۔
کیا آف شور اکاؤنٹ رکھنا غیر قانونی ہے؟
بالکل بھی نہیں۔ یہ بات باور کرادیں کہ ’آف شور اکاؤنٹ‘ کا رکھنا کوئی غیر قانونی اقدام نہیں، اگر اُس کی اطلاع ملک کے مالیاتی اداروں کو ہو، جیسے پاکستان میں کسی بھی شخص کو اپنی بیرونی کمپنی اور اس سے منسلک آف شور اکاؤنٹ کا قیام لانا ہو تو اُسے باضابطہ طور پر سیکوریٹی ایکسچینج آف پاکستان کو اطلاع کرنی ہوگی۔ اگر وہ یہ نہیں کرتا تو گمان یہی ہے کہ اس کا اقدام ٹیکس بچانے یا بلیک منی کو کسی طرح باہر محفوظ کرنے لیئے ہے۔دوسری جانب جن لوگوں کے ڈکلیئرڈ آف شور اکاؤنٹس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آف شور اکاؤنٹس سے دنیا بھر کے انٹرنیشنل پراجیکٹس کو ملنے میں آسانی ہوتی ہے۔ دوسرا ان ممالک میں کاسٹ آف ڈوئینگ بزنس نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ یہاں کے متعلقہ حکام مبینہ طور پر آپ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اگر آپ اپنے ٹیکس کو فائل کرتے ہیں۔ البتہ یہ بحث عوامی نمائندوں کے لئے بالکل بھی صحیح نہیں کیونکہ غریب ممالک کی معاشی پالیسیز بنانے والے کس منہ سے حقدار ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے پالیسیز بنائیں جب وہ خود اس کے پاسدار نہیں۔
پینڈورا کے کیا معنی ہیں؟
پینڈورا ایک یونانی لفظ ہے اور یونانی دیو مالائی قصے میں اس کا قصہ اس طرح سے لکھا گیا کہ ایک بیوی اپنے خاوند کا چھوڑا ہوا صندوق جب کھولتی ہے تو دنیا بھر کی لعنتیں کھل جاتی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا پینڈورا پیپرز سے بدعنوانی کی لعنتیں پھیلتی ہیں یا ا ن کا تدارک ہوتا ہے
Discussion about this post