اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت ہونے والی تمام کارروائیاں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ آرٹیکل 19 شہریوں کو حق آزادی اظہار رائے دیتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 ہتک عزت کی حد تک خلاف آئین ہے اور عدالت نے پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق پیکا ترمیمی آرڈیننس آرٹیکل 9،14 ،19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے، پیکاترمیمی آرڈیننس کا جاری کرنا غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی ایف یو جے سمیت دیگر کی درخواستیں بھی منظور کرلیں اور ترمیمی آرڈیننس 2022کے علاوہ پیکا 2016میں پہلے سے موجود سیکشن 20کے تحت ہتک عزت پر سزا بھی غیر آئینی قرار دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر فروغ نسیم نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اب فیک نیوز چلانے پر تین برس کی جگہ پانچ برس سزا ہوگی اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان مقدمات کا ٹرائل 6 ماہ میں مکمل ہوگا۔ اگر اس مدت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو متعلقہ ہائی کورٹ اس جج سے ٹرائل مکمل نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گا۔ اگر کوئی وجہ نہ ہوئی تو اس جج کو سزا دی جائے گی۔ بعدازاں پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ترمیم کردہ قوانین کو ’جمہوریت کے منافی‘ قرار دے دیا تھا اور پی بی اے اور دیگر صحافتی تنظیموں نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کیا تھا۔
اس خبر سے متعلق مزید پڑھیں:
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری
پیکا کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کا حکم
Discussion about this post