تحریک انصاف کی حکومت اب اپنی مدت کا تیسرا سال مکمل کرچکی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان 3برسوں کے دوان اس نے عوام کے لیے گراں قدر خوش حالی سے بھرے اقدامات ایسے کیے ہیں، جسے فخریہ انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں 2018میں قائم ہونے والی اس حکومت کے وزرا اور مشیران مختلف پریس کانفرنسز کے ذریعے حکومتی اصلاحات اور اقدامات کو تواتر کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ جہاں خارجی میدان میں کامیابیوں کو یاد کیا جاتا ہے، وہیں دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی میدان میں خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود کے کئی ایسے اقدامات ہیں جن پر وزیراعظم عمران خان ہی نہیں وزرا بھی اسے اپنی تقاریر کا موضوع بناتے ہیں۔
انتخابی وعدوں میں پیش رفت
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کا سب سے اہم وعدہ غریبوں کے اپنے گھر کے خواب کو سچ ثابت کردکھایا۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی حکومت کا کہنا ہے کہ جس طرح عمران خان نے نیا گھر جیسے تاریخ ساز منصوبے متعارف کرائے، جس کے نتیجے میں تعمیراتی شعبے میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا، اب ہر متوسط طبقے کے شخص کو امید لگی ہے کہ وہ بھی اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بینکوں کو اب تک 137.1روپے کے قرض کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں 51.1روپے کی مالیت کے قرضے منظور بھی ہوچکے ہیں۔
یکساں قومی نصاب
حکومت کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ اس نے پورے ملک میں ’یکساں قومی نصاب نافذ کیا۔ جس کے پہلے مرحلے میں نرسری اور پہلی سے پانچویں جماعتوں تک یکساں نصاب متعارف کرایا جارہا ہے۔ جس کا ایک اہم اور مفید مقصد یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی نصاب پڑھایا جائے تاکہ کوئی بھی کہیں بھی کسی دوسرے شہر میں سکونت اختیار کرے تو وہ بچوں کے نصاب کے حوالے سے ہلکان نہ ہو۔
دھاندلی کے شور کے خاتمے کیلئے الیکٹرونگ ووٹنگ مشین
انتخابات میں شفافیت کو نمایاں کرنے کے لیے پاکستان میں انتخابی نظام کو دھاندلی کے کینسر سے نجات دلانے کے لیے’الیکٹرونک ووٹنگ مشین ‘ کا ماڈل تیار کرنے کو بھی حکومت اپنی بہت بڑی کامیابی تصور کرتی ہے، جس پر عمل کرانے کے لیے وہ بار بار اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کی دعوت بھی دے چکی ہے جبکہ حکومت کی خواہش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق بھی دے۔
خارجہ پالیسی کے نمایاں اقدامات
وفاقی وزیرا طلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جہاں عمران خان کی حکومت نے زندگی کے ہر شعبے میں خاطر خواہ اقدامات کیے، وہیں اس حکومت کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ اس نے پہلی خودداری پر مبنی خارجہ پالیسی تیار کی۔ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب پاکستانی خارجہ پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
موثر اور جامع بلکہ برابری کی بنیاد پر قائم خارجہ پالیسی کو تحریک انصاف پاکستان کی عالمی حیثیت میں اضافے اور اہمیت پر بھی قابل قدر کارکردگی میں شمار کرتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ وزیراعظم عمران خان ہر پلیٹ فارم پر اسلامو فوبیا سے مقابلے کرنے کی جدوجہد کو ٹھوس انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کو عالمی ذرائع ابلاغ میں موثر انداز میں پیش کرنا اور سب سے بڑھ کر افغان امن عمل میں مصالحتی کردار بھی حکومت کی جرات مند انہ اور معتبرانہ کاوش کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان بار بار اس عزم کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ خطے میں امن کا خواہش مند ہے اور کسی صورت نہیں چاہتا کہ طاقت کا توازن بگڑے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اُسی صورت استور ہوسکتے ہیں جب مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہو، ساتھ ہی بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔ وزیراعظم عمران خان اس بات پر کئی بار مایوسی کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے پیغام کا بھارت میں قائم ہندو توا نظریے کی حامل مودی حکومت نے کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا۔
ریاست مدینہ کا تصور
وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے بھی کئی تقاریر میں اس جانب اشارہ کرچکے تھے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ وژن کے مطابق چلانے کے خواہش مند ہیں اور تین سال کے دوران وہ اس بات کا اظہار اپنی بیشتر تقاریر میں بھی کرچکے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے مطابق ریاست مدینہ کی طرح امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون کسی صورت نہیں ہوسکتا، اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں کو ملک کو فلاحی اور اصلاحی ریاست بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور ان کی حکومت اسی پہلو کو ذہن میں رکھ کر مختلف اقدامات کررہی ہے۔
و زیراعظم عمران خان نے عوام کی شکایات کو دور کرنے کے لیے جہاں ابتدائی دنوں میں ہی ’پاکستان سٹیزن پورٹل ‘ متعارف کرایا، جس کا مقصد پاکستانی شہریوں اور بیرون ملک مقیم افراد کے سرکاری محکموں سے متعلق اپنی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جاتا ہے۔ وہیں ہر اتوار کو وہ براہ راست ٹیلی فون پر عوامی مسائل سے بھی آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
سرسبز و شاداب پاکستان کا خواب
حکومت موسمیاتی تبدیلی کے لیے شجر کاری مہم پر روز اول سے زور دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں چاہے وہ دس ارب درختوں کا ہدف ہو، اسمارٹ جنگل یا پھر میاواکی جنگلات، حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان میں درختوں کا گھنا اور سرسبز جال بچھا ہو، جبھی پہلی بار ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے پروگرام کی میزبانی کا اعزاز پاکستان کو ملا، جس میں برطانوی وزیراعظم سمیت کئی ممالک کے سربراہان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ویڈیو لنک سے خطاب بھی کیا۔
کرونا وبا میں اسمارٹ حکمت عملی
کرونا وبا کے دوران جس حکمت عملی کے ساتھ حکومت نے اس وائرس کا مقابلہ کیا، اسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کے ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی تقلید بیشتر ممالک نے کی۔ ایسے میں حکومت نے ’احساس پروگرام‘ متعارف کراکے اُن افراد کی مالی امداد کی، جو اس وبا کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔ صحت کارڈ، پناہ گاہوں کا قیام، زرمبادلہ میں غیر معمولی اضافہ، جواں پروگرام سمیت کئی اقدامات کو پی ٹی آئی حکومت اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتی ہے
وزیراعظم عمران خان نے 3سال مکمل ہونے پر کیا کہا؟
اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ تین سال میں سب سے زیادہ تکلیف اُس وقت ہوئی جب مافیا نے فوج کے خلاف بیانات داغے۔ ہمیں پتا ہے بھارت کی لابی پورا زور لگارہی تھی ہماری فوج کے خلاف، لیکن پلوامہ حملے کے بعد احساس ہوا کہ طاقتور فوج ضروری ہے۔ کرونا وبا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا اور بہت مشکل فیصلہ کیا کہ پوری طرح لاک ڈاؤن نہیں کریں گے۔ ہمیں مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا،آئی ایم ایف کی شرائط پر چلنے سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے لیکن اب دھیرے دھیرے حکومت برے وقت سے نکل چکی ہے ۔ تجارتی خسارے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملکی تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر تھا اور آج 1.8ارب ڈالر ہے۔ وزیراعظم نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ جب وہ بھی وہ ناکام ہوتے تھے تو اپنی غلطیوں سے سیکھا۔ زندگی میں یہ بھی سیکھا کہ کبھی برے وقت سے ڈرنا یا گھبرانا نہیں چاہیے۔ترسیلات زر 19.9ارب ڈالر سے بڑھ کر تین سال میں 29.4ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ملک میں چاہتے ہیں تو صرف قانون کی بالادستی کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا راز سب کے لیے یکساں قانون ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ حضرت محمد ﷺ کی سیرت اور زندگی سے سیکھا۔پاکستانی نوجوان نسل کو سیرت النبی ﷺ سے سیکھنا چاہیے۔ ایک بار پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ مافیا نہیں چاہتی کہ تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہو، وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 3سال میں نیب نے 519ارب روپے ریکور کیے۔ جبکہ اس سے پہلے 18سال میں نیب صرف 290روپے ریکور کرپائی تھی۔
اپوزیشن جماعتیں پھر حکومت مخالف کیوں؟
یہ سوال بہت اہم ہے، بالخصوص اس حوالے سے جب اپوزیشن کا مورچہ کبھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کا استعمال کرتا ہے تو کبھی تن تنہا مختلف جماعتیں پی ٹی آئی حکومت پر گولہ باری کرتی نظر آتی ہیں۔ حکومت کا نعرہ یہی ہے ’تبدیلی سرکار کے 3سال بے مثال‘ جسے کسی صورت اپوزیشن ماننے کو تیار نہیں۔ ن لیگ ہوں یا پیپلز پارٹی جو تواتر کے ساتھ احتساب کے دہرے نظام پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اپوزیشن جماعتیں اس بات کی بھی تکرار کرتی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھونے لگی ہے۔ غریب، غریب تر ہو تا جارہا ہے اور عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔ حکومت ، اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کررہی ہے، جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات دائر کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن کی آواز دبانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ وہیں یہ جماعتیں، موجودہ حکومت کو منتخب حکومت ماننے کو تیار نہیں بلکہ اس بات پر بضد ہیں کہ ان کے ووٹ پر ڈاکہ مارا گیا ہے، بدقستمی سے اپوزیشن کے اس نعرے میں اُس وقت اور شدت آجاتی ہے جب وہ کسی ضمنی انتخاب میں شکست سے دوچار ہوں، بصورت دیگر کامیابی کی صورت میں اسے عوام کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جاتا ہے ۔ عالم یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر ہوں یا پھر وزیراعظم اگر ایوان میں اظہار خیال کریں تو دونوں جانب سے طوفان برپا ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی جماعتیں اب ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کے بجائے شعلہ بیانی، بدتمیزی کی حدیں پار کرکے اب بات ہاتھا پائی تک پہنچا گئی ہیں۔ برداشت اور اخلاقیات کا عمل دخل اب ملکی سیاست میں ختم ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کا کسی ایک ایشو پر اتفاق ہو نہیں پاتا۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کفایت شعاری کی نئی مثال قائم کرے گی لیکن اس وقت کابینہ میں 50سے زائد وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی کی فوج، ملکی خزانہ پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے سرکاری رہائش گاہوں کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کاوعدہ کیا تھا جو وفا نہ ہوسکا، غرض اپوزیشن تو اس بات پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے کہ وہ بار بار وزیر خزانہ یا آئی جی پنجاب کو کیوں تبدیل کرتی ہے۔ اپوزیشن یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ کہ آٹا اور چینی چور حکومت میں بیٹھے ہیں ، ان کے خلاف کب موثر اور سخت کارروائی ہوگی۔
اب اگلے 2سال کیا ہوگا؟
یقینی طور پر اپوزیشن جماعتیں، حسب روایت حکومت کی 5سال کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر الیکشن میں اتریں گی۔ اب حکومت کے لیے بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ان 2سال میں جو کام ادھورے رہ گئے ہیں، انہیں بروقت مکمل کرے۔ کیونکہ تجزیہ کاروں کے مطابق 2023میں حکومت کا اپوزیشن کو ’چور اور ڈاکو‘ کہنے یا ’این آر او نہیں دینے کا‘ بیانیہ عوام کو اس جانب راغب نہیں کرے گا کہ وہ ووٹ کی پرچی حکومت کے حق میں ڈالیں۔ کیونکہ سوال وہی اٹھے گا کہ 5سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ’چور، ڈکیت اور بدعنوان سیاست دان‘ کو حکومت گرفت میں نہ لے سکی تو پھر 2018کا بیانیے تو جوں کا توں ہی رہا ناں۔۔۔
Discussion about this post