چانڈکا میڈیکل کالج میں مبینہ خودکشی کرنے والی ڈاکٹر نوشین کی ڈی این اے رپورٹ سامنے آنے پر اہم انکشاف ہوا ہے، جس کے مطابق نوشین اور نمرتا کے جسم اور کپڑوں سے ملنے والے نمونے ایک ہی شخص کے ہیں، نومبر 2021 میں کہا گیا کہ نوشین نے مبینہ خود کشی کرلی جبکہ 2019 میں بھی کچھ ایسا ہی بیان سامنے آیا تھا جب شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج کی ڈاکٹر نمرتا کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں لڑکیاں ایک ہی ہاسٹل کے مختلف فلور میں رہتی تھیں، سوال یہ گردش میں ہے کہ کیا نوشین اور نمرتا کی مبینہ خود کشی کے پیچھے ایک ہی شخص ہے۔ ڈی این اے رپورٹ کے بعد اب ہاسٹل میں آنے جانے والے تمام مردوں کے خون کے نمونے لینے کی بھی سفارش کردی گئی ہے۔
طالبات خودکشی نہیں انہیں مارا جاتا ہے: پروین رند
طالبات کی مبینہ خودکشیاں اور جنسی ہراسیگی کے اس معاملے میں اُس وقت اور زیادہ شدت آئی جب نواب شاہ یونیورسٹی نرسنگ ہاؤس افسر پروین رند نے ڈائریکٹر اور وارڈن پر زیادتی کا الزام داغا ہے۔ جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکیوں کی عصمت کو تار تار کیا جاتا ہے۔ جو آواز اٹھائے اس کی لاش پنکھے میں لٹکا کر اسے خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ 9 فروری کی صبح 3 خواتین ماسک لگا کراس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ تشدد کیا اور اس سے کہا گیا کہ فلاں انتظامی عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہ کیے تو مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائے گی۔ جس پر وہ جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی۔
This is d status of women in #Pakistan!!
‘This is d university of Shaheed Benazir Bhutto & girls are not safe here. If I would not have survived today they would have killed me & would have said that ‘Dr. #ParveenRind died of suicide.’Dat is what they have done earlier.’#Justice pic.twitter.com/6NqEBJ15m4— Naved Baloch (@NavedBaloch2) February 10, 2022
نرس نے الزام لگایا کہ کہا جاتا تھا کہ دوستی کرو، باہر ڈنر پر چلو ورنہ فیل کر دیں گے، سپلی لگائیں گے، داخلہ منسوخ کروا دیں گے، جب ہم ان کی ڈیمانڈ نہیں مانتے تو ہمیں مارا جاتا، ہراساں کیا جاتا۔ آنسو بہاتے اور سسکیاں لیتی ہوئی نرس کے مطابق وہ اگر آج نہ بولتیں تو ان کی بھی شاید پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی لاش ملتی اور میڈیا میں آتا کہ اس نے پریشانی میں یہ اقدام اٹھایا۔ پروین رند نے وائس چانسلر، ڈائریکٹر یونیورسٹی اور وارڈن کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کردیا ہے، اُدھر ان الزامات کی تصدیق کے لیے تین رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے، ایس ایس پی نواب شاہ کے مطابق اس سارے معاملے پر مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ ہاسٹل وارڈن کو یونیورسٹی انتظامیہ معطل کرچکی ہے۔
میڈیکل کالجز میں خودکشی کے واقعات
یکم جنوری 2017 کے سندھ یورسٹی کے ہاسٹل سے نائلہ رند کی لاش ملی تھی ۔ تحقیقات میں ہراسانی کا پہلو سامنے آیا۔
آٹھ جنوری 2022
پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ ڈاکٹر عصمت جمیل طور نے بلیک میلنگ سے تنگ آکر مبینہ خودکشی کرلی جس کی لاش اس کے گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی
تین فروری 2022
سندھ یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ الماس بھان کو مبینہ اغوا کرنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔ملزم کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے پر طالبہ کو تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا
بہرحال یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے میڈیکل کالجز میں طالبات غیر محفوظ ہیں؟
Discussion about this post