اگر آپ بھارتی ریاست کیرالا کے ضلع مالپ پورپہنچیں اور کسی سے’ڈریس بینک‘ کے بارے میں دریافت کریں۔تو راہ گیر فورا ً ناصر ٹھوتہ تک لے جائے گا۔ جو اس منفرد اور اچھوتے ’ڈریس بینک‘ کو چلاتے ہیں۔ جہاں غریب اور نادار بچیوں کے لیے بلا معاوضہ عروسی ملبوسات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اب ناصر ٹھوتہ کو یہ ’ڈریس بینک‘ بنانے کا خیال کیوں آیا، اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ 8سال پہلے وہ سعودی عرب سے جب بھارت واپس آئے تو انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ بیشتر غریب گھرانوں کے لیے لڑکیوں کی شادی پر ملبوسات کی خریداری ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ جن پر بے پناہ اخراجات آتے ہیں۔ ناصر ٹھوتہ کے مطابق جہیز کی فراہمی کے لیے تو کئی سماجی تنظیمیں کام کررہی ہیں، پھر وہ کیوں ناں عروسی ملبوسات کے سلسلے میں ان غریب خاندانوں کی مدد کریں۔ اسی مقصد کو پانے کے لیے انہوں نے فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے دوست احباب کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے استعمال شدہ جوڑے انہیں عطیہ کردیں۔ ابتدا میں انہیں اس سلسلے میں دشواری ہوئی لیکن جب اُنہوں نے دوست احباب کو اصل مقصد بتایا تو سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
عالم یہ ہوگیا ہے کہ اب اجنبی بھی انہیں شادی کے ملبوسات فراہم کرتے ہیں تاکہ یہ کسی غریب لڑکی کے جہیز میں استعمال ہوسکے۔ جنہیں وہ یہ لباس عطیہ کرتے ہیں‘ ان لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر ان کے استعمال میں نہ ہوں تو انہیں کسی اور ضرورت مند تک پہنچا دیں۔ ناصر کے ’ڈریس بینک‘ میں اس وقت 800سے زائد عروسی ملبوسات ہیں۔ جنہیں باقاعدہ ڈرائی کلین کرکے شوکیس میں رکھا جاتا ہے اور جنہیں ضرورت ہوتی ہے وہ بلا تکلف ناصر ٹھوتہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ ناصر کے مطابق بہت سے ایسے افراد ہیں، جن کی اُن تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تو انہوں نے اس کے لیے باقاعدہ نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ جس کے ذریعے یہ اُن کی یہ مشکل آسان کی جاتی ہے۔ ناصر ٹھوتہ ٹیکسی کے علاوہ ایمبولینس بھی چلاتے ہیں۔جن کا یہ ’ڈریس بینک‘ درحقیقت غریب اور مفلس والدین کے لیے سہولت بن گیا ہے۔
بھارت میں شادی بیاہ اتنی مہنگی کیوں؟
امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں شادی کی صنعت 50ارب ڈالرز کی ہے، جو امریکا کے بعد دوسرا نمبر ہے۔ بھارت میں شادی بیاہ کی بے شمار فضول قسم کی رسومات ہیں، جن پر اخراجات بھی خوب آتے ہیں۔ غریب اور متوسط والدین ان خرچوں کو پورا کرنے کے لیے قرض اٹھاتے ہیں اور ساری زندگی سود سمیت اسے واپس لوٹانے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔خود لڑکے جب شاہانہ شادی کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو بینک کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ عدم ادائیگی پر خودکشی کو ترجیح دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امیر گھرانوں کے لیے شادی بیاہ پر بے دریغ دولت کا استعمال فیشن بن گیا ہے، جو غریب اور متوسط طبقے کو احساس کمتری کا شکار کررہا ہے۔
Discussion about this post