پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ،عروس البلاد کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے ترقی کے گراف پر مسلسل نیچے کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ریونیو جنریٹ کرنے والا شہر ترقی کے سفر میں سب سے پیچھے نظر آتا ہے، مگر ایسا کیوں ہے؟؟ کیا کراچی کے پاس وسائل کی کمی ہے؟؟ نہیں تو پھر کراچی اجڑے ہوئے گلشن کا منظر کیوں پیش کر رہا ہے ؟
کیا کراچی میں سیاسی لیڈرشپ کی کمی ہے؟؟ بالکل نہیں پھر کراچی ترقی کیوں نہیں کر رہا ؟؟
سیاست کی بات کریں تو، کراچی کا سیاسی درجہ حرارت جو عرصہ دراز سے نقطہ انجماد کے گرد گھوم رہا تھا حالیہ کچھ دنوں میں بہت ہائی ہو چکا ہے، ترقی کے سفر پر جمی برف آہستہ آہستہ پگھلتی نظر آر ہی ہے، کیونکہ جب سیاست کا پارہ چڑھتا ہے تو خواب خرگوش کے مزے لیتی حکومتوں کو ترقیاتی کام یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ترقی کے سفر میں بلدیاتی حکومتوں اور اداروں کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے، مگر کراچی اور سندھ بھر میں سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف ہی احتجاج ہو رہا ہے، سندھ کی تمام حزب اختلاف کی جماعتیں اس قانون کے خلاف ایک پیج پر نظر آر ہی ہیں جسے حزب اختلاف نے کالے قانون کا نام دیا ہے لیکن سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون لوکل باڈیز کو بااختیار کرنے کے لیے اور شہر کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے پاس کیا گیا ہے۔ ایک ہی قانون کے دو متضاد بیانیے اور دو متضاد رخ ہیں جو کہ کراچی اور سندھ کے شہریوں کو گو مگو ں کی کیفیت سے دو چار کیے ہوئے ہیں۔
سندھ بلدیاتی قانون کیا ہے اور یہ کب بنا ؟
1843 میں کراچی چند ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاوں تھا۔ جو میٹھا در اور کھارا در کے درمیان ایک قلعہ میں بند تھا۔ 1846 میں گندگی کے باعث کراچی میں ہیضے کی وبا پھیلی اور کئی ہزار افراد جان سے چلے گئے۔ اُس وقت انگریز سرکار کے مقرر کردہ گورنر سندھ سر چارلس نیپیئر نے صفائی کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے 3اراکین پر مشتمل کنزروینسی بورڈ قائم کیا اور خود اس بورڈ کے چیئرمین بنے۔ 1850 میں انگریزوں نے آل انڈیا میونسپل ایکٹ نافذ کیا تو اس ایکٹ کے تحت پہلی میونسپل کمیشن بنی اور 13اپریل 1853 کو کراچی کنزروینسی بورڈ کو ترقی دے کر کراچی میونسپلٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ 1870میں لوکل سیلف گورنمنٹ کا قانون نافذ ہوا جس کے تحت بلدیہ کراچی کی ذمے داریوں میں صفائی ستھرائی ، پانی سیوریج، سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ذمہ دار یاں بھی سونپ دی گئیں۔
اس قانون کے تحت مالیہ وصولی و خرچ کرنے کا اختیار بلدیہ کراچی کو حاصل ہو گیا۔ 1882 میں ایک نیا قانون آیا جس کے تحت صحت و تعلیم بلدیہ سے واپس لیا گیا اور مالیہ وصول و خرچ کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو واپس ہوگیا، البتہ پہلی مرتبہ 33فیصد افراد عوام کو منتخب کرنے کی اجازت دی گئی۔ 1919ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1919ء نافد ہوا اس کے تحت بلدیہ کراچی کو پولیس کنٹرول اور عدالتی اختیارات بھی حاصل ہوئے۔ 1933ءمیں میونسپل گورنمنٹ کے ایکٹ کے تحت بلدیہ کراچی کو کراچی میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا اور جمشید نصرو انجی کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔
اس قانون کے تحت نوٹیفکیشن میں بلدیہ کراچی کے لئے ’’کارپوریشن آف دی سٹی آف کراچی‘‘ استعمال ہوا جو آج بھی مونوگرام میں لکھا ہوا ہے۔1950ءمیں نیا میونسپل ایکٹ نافذ ہوا جو دراصل 1933ء کا ایکٹ ہی کا تبدیل شدہ نام تھا۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم نے1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈی نینس مجریہ 1959ء جاری کیا جس کے تحت انتخابات ہوئے ۔ اس قانون کے تحت پہلے بلدیاتی انتخابات 1960ء میں ہوئے۔ 1965ء میں ان اداروں کو عدالتی اختیارات دیے گئے۔ 5سالہ منصوبہ بندی، بجٹ سازی اور انتظامی اختیارات بھی بلدیہ کراچی کو حاصل ہوئے اور شہر کے بااختیار ادارےکے طور پر کام کیا، تاہم اس دور میں سربراہ سرکاری افسر ہی رہا۔
ہر دور میں تبدیلیاں
سال 1973 میں اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ’’پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس‘‘ نافد کیا ،مگر اس کے تحت نہ انتخابات ہوئے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہو سکا۔ 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلدیہ کراچی کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دے دیا۔ 1979 میں ضیاء الحق نے بلدیاتی اداروں کا نیا قانون نافذ کیا۔ ’’سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈینینس‘‘1979ءکے تحت انتخابات ہوئے۔1987ء میں حکومت سندھ نے ایس ایل جی او میں تبدیلی کر کے چار زونل میونسپل کمیٹیاں قائم کیں۔
سال 1993ء میں زونل میونسپل کمیٹیوں کو بلدیہ کراچی میں ضم کر دیا گیا۔ 1997ء میں شہر میں دوبارہ دو سطحی نظام نافذ کیا گیا اور 5 ڈسٹرکٹ کمیٹیاں قائم ہوئیں یہ قانون 1992 تک عملدرآمد کیا جاتا رہا۔ 14اگست 2001ء کو اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ نظام کے تحت کے ڈی اے، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز، ڈسٹرکٹ کونسل سمیت صوبے کے بہت سارے اداروں کو بلدیہ کراچی میں ضم کر کے اسے سٹی حکومت کا درجہ دیا گیا۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے قومی حکومتوں کا تصور پیش کیا اور اس کو بلدیاتی نظام سے جوڑ دیا۔ 2005 کے بلدیاتی انتخابات سے پہلے ضلع حیدرآباد کو 4 اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا اور حیدرآباد سٹی کو شہری حکومت کا درجہ مل گیا، ان انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں شہری حکومتیں بنائی۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی، جس پر یہ سیاسی دباؤ تھا کہ کراچی کو 5اضلاع میں تقسیم کرے اور حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔ لیکن پیپلز پارٹی ایسا نہیں کر سکی، اس کے بعد 2010 میں بلدیاتی نظام کی مدت پوری ہوگئی، مستقبل میں بلدیاتی نظام کیا ہو؟ اس کا تعین کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں مذاکرات شروع ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کو 2001 کے نظام پر تحفظات تھے، اسی لیے پی پی نے اس نظام کو برقرار رکھنے سے انکار کر دیا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی اس نظام نے کراچی اور حیدرآباد میں خاص طور پر سیاسی اور انتظامی گرفت مضبوط کی تھی اس لیے اس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ 2001 کا نظام کو برقرار رکھا جائے۔ 2011 تک پیپلز پارٹی اور حکومت میں مذاکرات کے کئی دور چلے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
سندھ کی حکومت نے نو جولائی سال دو ہزار گیارہ کو سندھ اسمبلی میں بل کے ذریعے 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کر دیا جس کے ساتھ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ کی ڈویژنل حیثیت بحال کر دی گئی۔ حکومت کو ایک بار پھر شدید مخالفت اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کراچی پہنچے اور رات گئے تک گورنر ہاؤس میں مذاکرات کے بعد کراچی اور حیدرآباد میں 2001 کا بلدیاتی نظام بحال کر دیا گیا، جس سے سندھ میں ایک وقت ہی دو نظام رائج ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اور سندھ بلدیاتی ایکٹ
ستمبر 2012 میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ میں آخر اتفاق رائے ہوگیا، جس کے بعد سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈینینس 2012 جاری کیا گیا، جس کے تحت کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ کو میٹروپولیٹن کارپوریشنز کا درجہ دیا گیا ۔ان شہروں میں میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرنے جبکہ باقی ماندہ 18اضلاع میں ضلع کونسلوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی۔ ستمبر 2008 میں س پیپلز لوکل باڈیز آرڈینینس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایک ہی صوبے میں 2 بلدیاتی نظام آئین سے متصادم ہیں، ستمبر 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1979 کا بلدیاتی نظام ایک بار پھر بحال کردیا۔ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت کے ساتھ سندھ کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، حکومت میں شمولیت کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کو کئی بار دعوت دی گئی لیکن وہ شامل نہیں ہوئی اور بالآخر 1979 کے بلدیاتی نظام کے قانون کی ٹرانزیشن کی مدت پوری ہوئی اور نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔مجوزہ بلدیاتی قانون کے مطابق کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن کارپوریشن ہوں گی، کراچی میں 5 ضلع کاؤ نسلوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع میں ضلع کاؤ نسل اور تحصیل سطح پر تحصیل متعلقہ کاؤ نسل قائم کی جائیں گی۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق کاسموپولیٹن اور میٹروپولیٹن کے سربراہ میئر اور ڈپٹی میئر جبکہ ضلع کاؤ نسل، تحصیل کاؤ نسل اور یونین کاؤ نسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین ہوں گے۔ یونین کاؤ نسل بنیادی اکائی ہوگی، جو چیئرمین، وائس چیئرمین، چار عام نشستوں، کسانوں یا مزدوروں، عورتوں، اور اقلیتوں کے لیے ایک ایک نشست مختص ہوگی۔
ضلع کاؤ نسل اور میٹروپولیٹن میں 22 فیصد نمائندگی خواتین، 5 فیصد اقلیتوں اور5 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو دی جائی گی، ان بلدیاتی حکومتوں کی مدت چار سال ہوگی، اور امیدوار کی عمر کم سے کم 21 سال مقرر کی گئی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی جنرل ضیاالحق کے دور میں 1979 میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام اور متحدہ قومی موومنٹ جنرل پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی نظام کی حامی رہی ہیں۔ اس سے پہلے دو بار یہ قانون اسمبلی سے منظور کیا گیا۔ آخری بار گزشتہ حکومت میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی باہمی رضامندی سے یہ قانون منظور ہوا۔
سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ(2013) اور موجودہ صورتحال
سال 2013ء میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ پاس ہوا۔ جس میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے ٹرانسپورٹ، پانی، بلڈنگ کنٹرول، کے ڈی اے، ماس ٹرانزٹ، سالڈ ویسٹ اور ماسٹر پلان کے ادارے سندھ گورنمنٹ کے اختیار میں دے دیے تھے ۔ اور اب 11 دسمبر 2021 کو سندھ اسمبلی کے اندر کثرت رائے سے ایک نیا بلدیاتی قانون 2021بل منظور کیا گیا جس میں سندھ حکومت نے بلدیاتی حکومت کے پاس موجود صحت اور تعلیمی اداروں کے باقی ماندہ اختیارات بھی لے لیے ہیں، سینکڑوں بلدیہ کے اسکولز اور میئر کراچی کے زیر کنٹرول عباسی شہید اسپتال ، سرفراز رفیقی اسپتال ، سوبھراج اسپتال ، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہار ٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر اسپتال اور کے ایم سی کی لا تعداد ڈسپنسریاں اب سندھ حکومت کے اختیار میں ہیں۔ اب مستقبل کا میئر کراچی "شو بوائے” بن گیا ہے۔
بل کے مندرجات کیا ہیں؟
بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہر جن میں حیدرآباد، سکھر لاڑکانہ، میر پور خاص، شہید بے نظیر آباد، میں کارپوریشنز لائی جارہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی یونین کمیٹیاں ہو ں گی جبکہ یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے اور انہیں ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔ ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن 50لاکھ آبادی والے شہر میں قائم کی جائیں گی اور اس ٹاؤن میونسپل کے ارکان کی مدت 4 سال ہوگی میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا، جس میں دیکھا جائے تو کراچی کے لئے مقامی حکومت کا نظام عوام کو با اختیار نہیں کرتا، سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی ایکٹ سے ظاہر تو یہی ہو رہا ہے کہ کراچی کو رہے سہے اختیارات سے بھی محرو م کردیا گیا ہے۔
ایک ہی ملک میں اختیارات میں تفریق کیوں؟
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں صحت اور تعلیم اور ترقیاتی کام میئر کے ذمہ ہے اور دیگر شعبے بھی میئر کے ماتحت ہیں لیکن کراچی میں ایسا نظام نہیں ہے ، اس قانون کے تحت کراچی میں ٹاؤن کی بحالی کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کے تحت بلدیہ کراچی سے صحت، تعلیم کے فرائض واپس لیے گئے حتی کہ پیدائش، شادی اور اموات کی رجسٹریشن کرنے کا بلدیاتی فریضہ اب سندھ حکومت نے خود انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ماضی کی طرح میئر کا انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔7صفحات پر مشتمل اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ٹاؤن کی بحالی پر تیار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلسل سوچ بچا ر کے بعد جو قانون نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت 7میونسپل کارپوریشن کی تقسیم ہے جنوبی مشرقی، مغربی، ملیر، کورنگی اور کیماڑی سینٹرل میونسپل کارپوریشن کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سندھ حکومت کے اس قانون کے بعد 20سے 25 ٹاؤن قائم ہوجائیں گے۔قانون کے تحت ہر ڈسٹرکٹ میں گریڈ 1سے 15اسامیوں پر اسی ڈسٹرکٹ کے شہریوں کو ملازمتیں ملیں گی۔
یاد رہے کہ سندھ اسمبلی نے بلدیاتی ترمیمی بل منظور کرکے گورنر سندھ کو ارسال کیا تھا، گورنر سندھ نے بل پر اعتراضات لگا کر واپس کردیا ہے۔
نیا قانون اور اس کا حل
اب پھر ایک نیا بلدیاتی قانون پاس کیا گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں جاری اس نئے قانون کے خلاف جماعت اسلامی کا سندھ اسمبلی کے سامنے 3 ہفتوں سے زائد کی مدت کا جاری دھرنا اور بقیہ اپوزیشن کی اس میں شرکت اور اس کے علاوہ احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کیا اس قانون کو تبدیل کروا سکتے ہیں یا پھر حکومت اپنی رٹ قائم کریگی۔
سندھ حکومت کے اس قانون کے خلاف جاری دھرنے میں مذاکرات کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے قائم کمیٹی کے سربراہ اور صوبائی وزیر ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ یہ قانون آسمانی صحیفہ نہیں کہ اس میں ردوبدل نہیں ہو سکتی ، مگر اپوزیشن جماعتیں کسی بھی عملی پیش رفت سے پہلے اپنے احتجاج اور دھرنے ختم کرنے کو تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سندھ میں اتنے عرصے سے جاری بلدیاتی قانون کی چپقلش کیا کسی منطقی انجام تک پہنچ پائے گی۔ کیا کراچی کا آئندہ آنے والا میئر بااختیار ہوگا۔ کراچی پھر ترقی کریگا؟؟
Discussion about this post