تحریر : عمر زیدی
پل بھر کو آپ کے قدم اس وقت رک جائیں گے جب ماریتا وال استروم کسی پاکستانی کو دیکھ کر اُس سے انہی کی زبان میں گفتگو کا آغاز کریں گی۔ لفظوں کی شائستگی اور انداز بیاں ایسا ہے کہ دل کو مسحورکن احساس ہوتا ہے۔ دیار غیر میں رہنے والے اکثر پاکستانی ان کے اردو لب و لہجے کو دیکھ کر سمجھیں دنگ ہی رہ جاتے ہیں۔ عمر رسیدہ ماریتا وال استروم سوئیڈن کے شہر یونشوپنگ کے مختلف اسپتالوں میں بطور نرس انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اردو زبان کہاں سے سیکھی؟
سوئیڈن میں رہنے والے اکثر ایشیائی باشندے بالخصوص پاکستانیوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ کیا ماریتا استروم نے اپنے ہی ملک میں رہ کر اردو زبان میں مہارت حاصل کی۔ یہی سوال جب دریافت کیا تو ماریتا وال استروم نے اپنی زندگی کا وہ باب کھولا، جس سے بیشتر افراد لا علم تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سن 1979سے سن 1991تک پاکستانی شہر ایبٹ آباد کے علاقے قلندر آباد کے مشنری اسپتال میں نرس کی ذمے داری نبھاتی رہی ہیں۔ یہی نہیں وہ پشاور کے بھی مختلف اسپتالوں میں خدمات انجام دیتی رہیں۔ ’جیسا دیس ویسا بھیس‘ کی طرح جہاں انہوں نے شلوار قمیض کو اپنا سراپا بنایا، وہیں اسپتال میں آنے والے مریضوں کی آسانی کے لیے اردو زبان سمجھنے اور سیکھنے کی جستجو کی اور اس کوشش میں انہیں زیادہ دن نہیں لگے۔ مریضوں کے لیے وہ منظر خاصا خوشگوار ہوتا، جب ماریتا وال استروم انہی کی زبان میں ان کے مرض کے بارے میں دریافت کرکے ان کی نگہداشت میں دن و رات ایک کرتیں۔
پاکستانی کھانوں کا ذائقہ بھول نہیں پائیں
ماریتا وال استروم پاکستان میں رہتے ہوئے جہاں پاکستانیوں کے خلوص اور اخلاق کی گرویدہ رہیں۔ وہیں کھانوں سے بھی انہیں عشق رہا۔ وہ آج بھی ساگ اور مکئی کی روٹی کو یاد کرتی ہیں۔ بلکہ بالٹی گوشت تو ان کی پسندیدہ ڈش تھی۔ ساتھ ہی ماریتا وال استروم اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان میں کھانوں کی بڑی ورائٹی کا ذائقہ ایسا چکھا جو فراموش نہیں کیے جاسکتے۔
پاکستان کے مرغی کے گوشت کی تیاری بھی انہیں بہت پسند ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مری کے ایک ریسٹورنٹ کا رخ وہ بار بار کرتی تھیں کیونکہ وہاں مزے دار کھانوں کی لمبی فہرست ان کے استقبال کے لیے موجود ہوتی۔ جب کہ پاکستانی موسم کو سوئیڈن کے موسم سے مماثلت قرار دیتی ہیں۔
پاکستان بہت یاد آتا ہے
ماریتا وال استروم کو پاکستان اور پاکستانیوں کی یاد بہت ستاتی ہے۔ جو دن انہوں نے پاکستان میں گزارے انہیں اپنی زندگی کے بہترین لمحات قرار دیتی ہیں۔ ماریتا وال استروم کا کہنا ہے کہ جتنا پیار پاکستانیوں نے انہیں دیا، وہ ذہن سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ وہ چار سال پہلے پاکستان کا رخ کرچکی ہیں۔ جبکہ اب بھی کئی پاکستانی دوست ان کے مسلسل رابطے میں ہیں، جن کے ساتھ وہ پرانے قصے یاد کرتی ہیں تو ماضی میں کھو جاتی ہیں۔ ماریتا وال استروم کا کہنا ہے کہ پاکستان واپس آکر پھر سے انسانیت کی فلاح بہبود کی خواہش ہے، ناممکن تو آرزو ہے لیکن جانا ہوا تو وہ ضرور جائیں گی۔
جب پاکستانی پولیس اہلکار نے انہیں سلوٹ کیا
ماریتا وال استروم اپنی زندگی کا بہترین اور یادگار واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ ایک بار قلندر آباد سے مسافر بس میں پشاور جارہی تھیں۔ ناکے پر پولیس نے بس کو روکا اور ہر مسافر کی تلاشی شروع کردی۔ جیسے ہی اہلکار ان کے پاس آیا تو وہ گھبراہٹ کا شکار ہوگئیں۔ عقب میں بیٹھے مسافر نے بتایا کہ ماریتا وال استروم مہمان ہیں اور قلندر آباد سے آرہی ہیں۔ یہ سنتے ہی اس اہلکار نے انہیں سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔
Discussion about this post