یہ ایک نجی محفل تھی جس میں جنید جمشید بات کر رہے تھے اور لوگ ہمہ تن گوش تھے۔’جب میں میوزک میں تھا تو کشور کمار کا ایک گانا صرف اپنے لیے گاتا تھا اور کسی کو نہیں سناتا تھا۔ وہ گانا میری اُس زندگی کو بیان کرتا تھا جو میں نے ترک کردی یا جس میں، میں ایک عجیب بے چینی کی کیفیت کا شکار رہا۔ جب میں نے موسیقی کی دنیا چھوڑی تو لگا کہ یہ گانا میری اِس والی زندگی کو بھی بیان کرتا ہے جو اب میں نے اپنائی ہے۔
ایک دن میں نے اپنے استاد مولانا طارق جمیل صاحب سے کہا کہ میں یہ گانا گادوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ گانا کسی اللہ کے بندے نے لکھا ہے‘مگر مولانا نے ہمیشہ کی طرح احترام کے ساتھ سمجھایا ’نہیں یار ، تم گانا گاؤ گے تو بہت سے لوگ تقلید کریں گے، تم گنگنائے بغیر اشعار پڑھ دو‘۔ اسکے بعد جنید جمشید نے کشور کمار کے گائے نغمے کے بول پڑھے ”یہ جیون ہے ، اس جیون کا یہی ہے رنگ و روپ،، تھوڑے غم ہیں، تھوڑی خوشیاں، یہی ہے چھاوں دھوپ“۔۔ اس گانے کی شاعری آنند بخشی نے لکھی تھی جبکہ لکشمی کانت پیارے لال نے اس کی دھن بنائی اور کشور کمار نے اسے فلم ” پیا کا گھر“ کیلئے گایا۔
آج 7 دسمبر ہے ۔۔ آج سے ٹھیک 5 سال پہلے یعنی 7 دسمبر 2016 کے دن ’دل دل پاکستان‘ جیسے مشہور زمانہ نغمے کو غیر سرکاری قومی ترانے کا درجہ دینے والا اور آگے چل کر پاکستان میں پاپ میوزک کے بانیوں میں سے ایک شمار ہونے والا گلوکار طیارے کے حادثے میں اس جہاں سے کوچ کرگیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا یہ چھتیسواں فضائی حادثہ تھا جس میں جنید جمشید سمیت تمام اڑتالیس مسافر جان کی بازی ہارگئے۔۔ زرائع کے مطابق حالانکہ حادثے سے کچھ عرصہ قبل خستہ حال طیارے کو گراؤنڈ کرانے کے لئے اسلام آباد بھیجا گیاتھا، یوں بھی اس نسل کے طیارے عالمی معیار کے مطابق غیر معیاری سمجھے جاچکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ تائیوان نے اپنے ان تمام طیارو ں پر بیک وقت پابندی لگاکر انہیں گراؤنڈ کردیاتھا۔ مگر اُس روز پاکستان میں اِسی طرز کے طیارے کے پائلٹ نے ایبٹ آباد سے نکلتے ہی’ مے ڈے‘ سگنل دیاجس کا مطلب تھا کہ طیارہ اس کے قابو سے باہر نکل چکاہے۔ اور جب تک اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کچھ کیا جاتا، بہت دیر ہوچکی تھی۔
چترال کے تبلیغی دورے میں ان کے قریبی دوست اور سابق ٹیسٹ کرکٹرسعید انور بھی شامل تھے مگر وہ وہیں رک گئے، جنید جمشید کو نماز جمعہ کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤ س کی مسجد میں خطبہ دینا تھا لیکن اس خطبہ سے دودن پہلے ہی وہ اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔ وفات سے پہلے اپنے آخری ٹوئٹ میں جنید جمشید نے چترال سے اپنے ساتھی مبلّغین کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔
نوے کی دہائی میں جنید جمشید کے گانے ہر وقت ریڈیو اور ٹی وی پہ بجائے جاتے تھے اور سیڈیز دھڑا دھڑ فروخت ہوتی تھیں۔ اس کا بینڈ ”وائیٹل سائینز“ بے حد پسند کیا جا رہا تھا۔ لیکن کچھ ایسی کمی تھی جس کی وجہ سے انھیں اپنی زندگی بہت خالی لگتی تھی۔ اور وہ تھی اُن کے دل کی بے سکونی۔ اپنے اس اندرونی خوف سے نجات پانے کے لئے بہت سے امیر اور معروف لوگ منشیات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں لیکن جنید جمشید نے دین اسلام کا راستہ اختیار کیا۔ ابتدا میں موسیقی چھوڑنے کے فیصلے پر اُن کے کئی مداحوں کی جانب سے سخت تنقید آئی، جن میں پاکستان کے صف اول کے ڈائریکٹر شعیب منصور بھی شامل تھے۔
شعیب منصور جنید کے میوزک چھوڑ دینے اور تبلیغی جماعت جوائن کر لینے پہ شدید دلبرداشتہ تھے۔ انھوں نے 2007 میں ایک جگہ لکھا؛ ایک صبح جب میں اخبار پڑھ رہا تھا جس میں جنید جمشید کا انٹرویو دیکھا، ساتھ ہی “ نئی تصویر ”بھی چھپی تھی۔ اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ جاننے کے بعد کہ موسیقی حرام ہے۔ وہ میوزک بینڈ چھوڑ رہا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے شدید صدمہ ہوا۔ میں نے اپنی زندگی کے پندرہ سال اسے دیے۔ اس کی ایک پروفیشنل کے طور پہ تربیت کی۔ مجھ سے مشورہ کیے بغیر وہ کس طرح میری ساری محنت پہ پانی پھیر سکتا ہے۔
شعیب منصور نے اس دوران سکرپٹ ”خدا کے لئے“ لکھا اور جمشید سے کہا کہ وہ اس میں مرکزی کردار ادا کریں مگر انھوں نے انکار کردیا۔ یہ تبدیلی بڑے امتحان کی متقاضی تھی جسے جنید نے پاس کر کے دکھایا۔ پاکستان کے اسٹائل آئیکون مانے جانے والے فنکار نے پہلے عملی طور پر مغربی پہناوا ترک کیا، داڑھی بڑھائی اور گانوں کی جگہ فوری طور پر نعت خوانی شروع کردی۔ سنہ 2005 میں جنید جمشید نے نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ’جلوہ جاناں‘ ریلیز کیا۔ اسکی بے حد کامیابی کے بعد’محبوب یزداں‘ 2006 میں اور ’بدر الدجا‘2008 میں اور’بدیع الزماں‘2009 میں ریلیز ہوئی۔ اس دوران جنید جمشید نے اپنا بزنس بھی شروع کیا جس کی شاخیں آج ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایک اعلیٰ پہچان رکھتی ہیں۔ جنید جمشید کو 2007 میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
جنید جمشید کے انتقال کے بعد مولانا طارق جمیل محافل میں انکے ذکر پر آج بھی اشک بار ہوجاتے ہیں۔ کشور کمار کے گانے والا واقعہ بھی یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’میں نے اخلاق میں جنید جیسے بہت کم دیکھے ہیں، کتنی خوبصورت واپسی مقدر ہوئی، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے،جنید جمشید اور میں نے 10 حج اکٹھے کیے تھے، جنید جمشید نے محبت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے، وہ بہت عظیم اخلاق والے شخص تھے اور ایسے اخلاق والے لوگ دنیا میں بہت کم دیکھے ہیں‘۔
Discussion about this post