ابھی تک کوووڈ کی چوتھی لہر سے سنبھلے ہی تھے کہ ایک اور وبا ڈینگی نے آگھیرا ہے۔ ہر سال ایک زہریلے مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے کئی افراد موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ مگر حکومت ہمیشہ سے لگتا ہے کہ بے زار ہی رہتی ہے اور اس سے نبرد آزما کی کوشش ہی نہیں کرتی۔ اس بار پھر پنجاب میں ڈینگی اپنا زور دکھا رہا ہے۔ منگل کو صرف راولپنڈی میں ہی 36ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق 13مریض مشکوک ہیں کہ انہیں ڈینگی ہے کہ نہیں۔ پنجاب کی باہمت وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد جو کہ خود کینسر کے مرض سے لڑ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار حکومت 2019کی طرح ڈینگی کو پورے پنجاب میں نہیں پھیلنے دیں گے۔ اُن کی شہریوں سے درخواست تھی کہ احتیاط کریں اور اپنے آپ کو ڈینگی سے بچائیں۔ جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تمام متعلقہ حکام جس میں کمشنر او ر ڈپٹی کمشنر شامل ہیں، انہیں چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور باور کرایا ہے کہ ڈینگی کے کیسز میں اضافہ نہ ہو۔
مزید یہ کہ اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی جائے کہ کھلا پانی چھتوں پر یا گھروں میں نہ ہو بلکہ اسے ڈھانپ کر رکھا جائے۔2019 میں ڈینگی کے 25 ہزار کیسز پورے پاکستان میں رپورٹس ہوئے تھے البتہ اموات کا تناسب بہت کم تھا۔پاکستان میں سب سے زیادہ اموات 2011میں رپورٹس ہوئی تھیں۔ جب 370افراد اس وباسے لقمہ اجل بنے تھے۔ اموات میں کمی کی خاص وجہ عوام میں شعور آنا اور حفاظی اقدامات پر عمل کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے ماضی کے برعکس اب ڈینگی وبا اتنی شدید نہیں۔ دوسری جانب وہ مریض جو ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے بقول اس مرض سے ان کے وائٹ سیلز میں کمی آجاتی ہے۔ جس میں خون کے عطیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر سیلز ایک مقدار سے زیادہ گر جائیں تو یہ موت کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی لیے بروقت احتیاط ہمیں ڈینگی کی وبا سے بچا سکتی ہے۔
ڈینگی کا مچھر کیا ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کا بخار دراصل بھورے رنگت کے دھاری دار مچھر کے ڈنک مارنے سے ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ طلوع آفتاب اور پھر غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر کسی کو تیز بخار کے ساتھ سر میں شدید درد ہونے لگے تو یہ ڈینگی کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریض کا بلڈ پریشر کم ہونے لگتا ہے جبکہ جسم اچانک ہی سرد پڑ جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اُس کے گھٹنوں اور جوڑوں میں درد کی کیفیت ہوتی ہے۔
اسی طرح لال رنگت کے دھبے جسم کے مختلف حصوں پر پڑنے لگتے ہیں۔ ڈینگی کے مریضوں کے ابتدائی دو مراحل میں علاج ممکن ہوتا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے مرحلے میں ایسے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اُن کی قوت مدافعت میں کمی آنا ہے۔ جس کے باعث وہ دوسری بیماریوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈینگی سے کیسے بچا جائے؟
ڈینگی کا مچھر عام طور پر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے۔ اسی لیے کہیں بھی صاف پانی کو اکٹھا نہ کیا جائے۔ بالخصوص پھولوں اور پودوں کے گملوں کے نیچے جمع ہونے والے پانی کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ کوشش کریں کہ صاف پانی کے سبھی برتنوں کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں۔مچھر مارنے کے مختلف اسپرے کا استعمال تواتر کے ساتھ کریں۔ طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر چھت پر سونا مقصود ہو تو مچھر دانی کا استعمال کریں۔
Discussion about this post