وکٹ کیپر رضوان نے بھاگتے دوڑتے لگ بھگ تھرڈ مین کی پوزیشن پر جا کر جب جیمت ورکین کا کیچ لپکا تو ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے شکست کو پرے دھکیل دیا ہے ۔ نویں وکٹ گری تھی اور ویسٹ انڈیز کو سترہ رنز کی مسافت طے کرنی تھی ، جو پاکستانی پیس اٹیک کے سامنے پل صراط لگ رہی تھی ، جس پر چلتے ہوئے کوئی ایک غلط قدم ڈگمگایا تو فتح پاکستان کی جھولی میں چلی جاتی ۔ لیکن کسی نے صحیح کہا ہے کہ کرکٹ کھیل میں قسمت جس کی اچھی ، وہی مقدر کا سکندر بن جاتا ہے۔
ویسٹ انڈین کی آخری جوڑی نے صبر اور تحمل کے ساتھ دھیرے دھیرے ہدف کو پورا کرنے کی جستجو جاری رکھی ۔ ٹیل اینڈر جیڈن سیلز کی عمر صرف 19 سال ہے لیکن جس طرح پہلے انہوں نے پاکستانی بلے بازوں کے ارمانوں کو 5 وکٹیں حاصل کرکے خاک میں ملایا، وہیں جب ٹیم کو ان کی پچ پر موجودگی کی ضرورت تھی انہوں نے کوئی جلد بازی نہیں کی۔
ادھر پاکستانی کپتان بابر اعظم اس اعتبار سے اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کررہے تھے کہ ماسوائے یاسر شاہ کے ہر بالر نے ان کا مان رکھا تھا ۔ وہ جہاں بولنگ تبدیل کراتے ، کچھ نہ کچھ دیر بعد نتیجہ ان ْکے حق میں آنے لگتا۔
جمیکا میں گنتی کے جو بھی تماشائی اور گراؤند اسٹاف تھا ، وہ بے چینی اور بے تابی کے ساتھ میزبان ٹیم کو سرخرو دیکھنا چاہتا تھا ۔ درحقیقت پہلے ٹیسٹ کے چوتھے دن کا کھیل کسی ایکشن اور ایڈونچر سے بھری فلم سے کم نہ تھا ۔ جس میں کبھی ایک ٹیم حاوی ہوتی ہے تو کبھی دوسری ۔ 168 کے تعاقب میں میزبان ویسٹ انڈیز نے خوب داؤپیچ آزمائے مگر اس کی وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح وقفے وقفے سے بکھرتی جارہی تھیں، ادھر پاکستانی ٹیم کی امیدوں کے چراغ روشن ہو رہے تھے۔
شاہین آفریدی جہاں اپنے پورے جوبن پر تھے تو میچ میں سنسنی پھیلانے کے لیے حسن علی اور فہیم اشرف بھی کافی تھے۔ جیسن ہولڈر جیسا بہترین بلے باز جب حسن علی کے ہاتھوں بولڈ ہوا تو ویسٹ انڈیز کو 54 رنز کی اور پاکستان کو صرف 3 وکٹوں کی ضرورت تھی ۔ لیکن اس کے بعد نجانے کہاں سے واپس وہ پاکستانی ٹیم لوٹ کر آگئی ، جس کے ہاتھوں میں گیند چپکتی ہی نہیں ، جس ہاتھوں میں اچانک ہی ایسے سوراخ ہوتے ہیں کہ گیند نکلتی ہی چلی جاتی ہے ۔ پہلے محمد عباس ، پھر حسن علی اور پھر وکٹوں کے پیچھے ہر دم چاک و چوبند کھڑے رضوان کے ہاتھوں سے کیچز پھسلے تو سمجھیں میچ گیا ہاتھ سے۔ ۔ اب ایسے میں خیال تو یہی آیا کہ ہر فیلڈ پر عمران بٹ کو کیوں نہیں کھڑا کردیا جائے ۔ جنہوں نے اس میچ میں 4 غیر معمولی کیچ دبوچے تھے ۔ ان میں سب سے یادگار تو 55 رنز کی شاندار اننگ کھیلنے والے بلیک وڈ کا سلپ کا کیچ تھا ۔ جو انہوں نے قلا بازی کھا کر گرنے ہی نہیں دیا۔
یہ بھی کیا ستم ظریفی ہے کہ کئی میٹر دور جا کر فضا میں اڑتے ہوئے رضوان نے کیچ تو لپک لیا تھا لیکن ایک آسان کیچ ایسا چھوڑا کہ میچ کا نقشہ ہی بدل دیا ۔ کہتے ہیں کہ کرکٹ میں ” کاش "کا لفظ بڑا ظالم ہے ، جو ہر کھلاڑی کو خاصا تنگ کرتا ہے ۔ اب یہی ” کاش ” رضوان کو کئی مہینوں تک بے چین کرتا رہے گا ۔ رضوان کے کیچ چھوڑنے کا خمیازہ ایسا ہوا کہ ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے صرف 2 رنز کی ضرورت رہ گئی ۔یکدم پاکستانی ٹیم جو خاصی پرجوش تھی اس کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ وہ جانتے ہیں کہ اب کچھ باقی نہیں رہا اور جب کیمروچ نے کور ڈرائیو کھیلی تو میزبان گراؤنڈ اسٹاف خوشی سے جھوم اٹھا کیونکہ ویسٹ انڈیز ٹیم صرف ایک وکٹ سے پہلا ٹیسٹ جیت چکی تھی ۔
کیا پوری ٹیم بابر اور رضوان پر انحصار کررہی ہے ؟
یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے ۔ پاکستانی مڈل آرڈر ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کے بعد اب ٹیسٹ میچوں میں بھی ” ایکسپوز ” ہوچکا ہے ۔ دوسری اننگ میں 65 رنز پر 4 کھلاڑیوں کو ویسٹ انڈین بالرز نے ڈریسنگ روم میں آرام کرنے پر مجبور لیکن اس مرحلے پر 56 رنز کی رضوان اور بابر کی ساجھے داری نے کچھ سنبھالا دیا لیکن پھر پاکستان کی آخری 5 وکٹیں اسکور میں صرف 35 رنز ہی کھینچ تان کر بنا گئیں۔ یہ اُس ٹیم کے شایان شان نہیں جس کے کوچ مصباح الحق ہیں، جو دعوے بہت کرتے ہیں لیکن عمل کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ وکٹ پر کھڑے ہونے کا تھوڑا بہت سلیقہ اور ہنر اب پاکستانی بلے بازوں کو ویسٹ انڈین کی آخری جوڑی سے ہی سیکھ لینا چاہیے۔
عمران بٹ اور عابد علی مسلسل ناکام
مانا کہ عمران بٹ بہت اچھے ّ کیچر ” ہیں لیکن جس کام کے لیے انہیں ٹیم میں منتخب کیا ہے وہاں وہ اب تک ناکام ہی چلے آئے ہیں ۔ ٹیسٹ میچ کی 8 اننگز میں صرف 140 رنز ۔۔ ان میں دو بار وہ صفر پر جبکہ اتنی ہی بار وہ ڈبل فیگرز میں بھی نہ پہنچ سکے ۔ اگر ان کا چناؤ ان کی فیلڈنگ کی وجہ سے ہورہا ہے تو یہ کسی افتتاحی بلے باز کے ساتھ زیادتی ہے ۔عمران بٹ کی اس ” قابلیت ” پر ” ایکسٹرا ” کے طور پر بھی تو کھلایا جاسکتا ہے ۔ عابد علی کی بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے ان کے اندر مصباح الحق کی روح سما گئی ہے ، جبھی اس قدر دفاعی اور ” ٹک ٹک ” انداز میں کھیلتے ہیں کہ ٹی وی بند کرنے کو من چاہے ۔ زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف دس گھنٹے پچ پر رہ کر موصوف 215 رنز بنا کر اب ٹیم پر مسلط ہیں اور کئی برسوں تک رہیں گے ۔
یاسر شاہ کا ” گڈ بائے ” کا وقت آگیا ؟
لیگ اسپنر یاسر شاہ کا دور ختم ، جمیکا ٹیسٹ میں لاکھ کوشش کے باوجود ایک وکٹ بھی ان کے نام کے ساتھ نہ جڑ سکی اور گزشتہ 3 سال کے دوران یہ 8 واں موقع ہے جب وہ میدان سے ایک کھلاڑی کو بھی ٹھکانے لگائے بغیر واپس لوٹے ۔ اب ان کی بولنگ میں چمکا دیتی کاٹ اور کش رہی ہے اور ناہی ان میں دم ، توقع تھی کہ بائیں ہاتھ کے نعمان علی کو ٹیم میں جگہ دی جاتی تو میزبان بلے باز کچھ نہ کچھ پریشانی سے دو چار ہوتے ۔
اگلے ٹیسٹ کی ممکنا ٹیم کیا ہوگی ؟
یہ پاکستانی ٹیم ہی ہے جو ” وننگ کمبی نیشن ” کے ساتھ ” لوزنگ کمبی نیشن ” پر بھی یقین رکھتی ہے ۔ امکان ہے کہ صرف یاسر شاہ کی جمعے سے شروع ہونے والے ٹیسٹ سے چھٹی ہوجائے پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” بوائز پلیڈ ویل ” کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یہی ٹیم میدان میں اترے ۔
Discussion about this post