دنیا اس وقت کورونا وبا کی نئی قسم ’اومی کرون‘ سے خوف زدہ ہے۔ ایک ایسا ویرئنٹ جس کا سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ جنوبی افریقا میں اس خطرناک قسم کی تشخیص کے بعد تو اقوام عالم اس سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات میں جتی ہوئی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ ’اومی کرون وائر س‘ کا انکشاف تو 1963میں ہی ہوگیا۔ اس بارے میں مختلف پوسٹرز بھی سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔ ’اومی کرون ویرینٹ‘ کے نام سے پوسٹرز وائرل ہورہے ہیں۔ ہر کسی کا خیال ہے کہ 58سال پہلے ہی اس وائرس کی دنیا کو تباہ کرنے کی پیش گوئی ہوچکی تھی پھر سائنس دانوں نے آخر اس کا تدارک کیوں نہیں کیا؟
وائرل ہوتے پوسٹرز کی حقیقت
یہ وائرل پوسٹر دراصل فوٹو شاپ کا کمال ہی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ 1963میں ’اومی کرون‘ کے نام سے ایک فلم نمائش پذیر ہوئی تھی۔ ہدایتکار یوگو گروگٹی کی اس تخلیق میں ریناٹو سال ویٹری اور روزمری ڈکسٹر تھے۔ کہانی گھوم رہی تھی کہ ایلنز کے گرد، جو مردہ انسان کی لاش اپنے ساتھ لے کر سیارے پر لے گئے ہیں، جہاں وہ انسانی جسم پر تحقیق کرتے اور مقصد صرف یہ ہے کہ ایک ایسا منصوبہ بنایا جائے کہ کیسے زمین پر اپنی سلطنت قائم کی جائے اور اب ان کے اس خوف ناک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہیرو ایکشن میں نظر آتے ہیں۔ اب اسی فلم کے پوسٹرز کے ساتھ فنکاری دکھاتے ہوئے صارفین نے ’اومی کرون‘ کے ساتھ ’ویرینٹ‘ کے لفظ کا اضافہ کرکے وائرل کردیا ہے۔ اور یہ کارستانی فوٹو شاپ کے ماہر بیکی چیٹی اور کرسٹوفر ملر نے کی۔جنہوں نے اعتراف بھی کیا۔
یہی نہیں اس فلم کے بعد ’سائی بورگ 2087‘ کے نام سے بننے والی فلم کے پوسٹر کو بھی فوٹو شاپ پر جا کر ’دی اومی کرون ویرینٹ‘ کا نام دے کر وائرل کیا جارہا ہے۔ کچھ ایسی ہی کاری گری دیگر مختلف فلموں کے پوسٹرز کے ساتھ کی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ’اومی کرون ویرینٹ‘ پر ماضی میں بے شمار فلمیں بن چکی ہیں۔
Discussion about this post