پاکستان اور بھارت کا میچ چاہے آج ہو یا برسوں پہلے، سب کام کاج چھوڑ کر بس اُس وقت تک پورا خاندان ٹی وی کے سامنے جما رہتا تھا، جب تک گیند کی آخری گیند نہ پھینکی جائے یا نتیجہ نہ آجائے ، دنیا تسلیم کرتی ہے کہ ان میچز میں سنسنی خیزی اور کئی ڈرامائی موڑ آتے ہیں۔ جوش اور جذبہ عرو ج پر رہتا، آخر کو روایتی حریفوں کا جو میچ ہوتا۔ کسی کی جیت پر یا پھر کسی کی ہار پر ’کاش‘ اور ’اگر‘ کی گردان ہوتی تھی اور پھر انتظار ہوتا کہ اگلے میچ میں ضرور اس کی کسر نکال لی جائے گی۔۔ ان میچز کو دیگر ٹیموں کے برعکس اہمیت ضرور ملتی تھی لیکن اتنی نہیں کہ جو صورتحال اب ہے۔تبصرے اور تجزیے بھی ہوتے لیکن فوکس صرف کھیل ہوتا۔ حالیہ برسوں میں پاکستان اور بھارت کے نجی چینلز نے اس معرکے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی ہے ، جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہے۔ کسی ایک کی ہار، دوسرے کی رسوائی یا ذلت کا روپ دھار لے گی اور کسی کی فتح اُسے کپ جیتے بغیر عالمی فاتحین کا درجہ دے جائے گی، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ سب میچوں سے بڑا میچ تو کوئی اسے دونوں ملک کے درمیان جنگ کا پہاڑا پڑھتا ہے۔
کوئی اس پہلو پر غور نہیں کرتا کہ یہ صرف ایک کھیل ہے اور میدان میں اترنے والی کوئی بھی ٹیم جیت سکتی ہے اور کسی کو بھی شکست کا غم سہنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی بنا پر اب برسوں بعد میچ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پاک بھارت کے نجی چینلز کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ وہ ’ریٹنگ‘ کی دوڑ میں نمبر ون آنے کے لیے ہراُس کارڈ کو ’کیش‘ کرائیں، جو ’کمرشلز‘ لانے کا باعث بنے، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچز پر اسٹوڈیو کے یخ بستہ کمرے میں بیٹھ کر گرما گرم تبصرہ کرنے پر ٹی وی چینلز کو بڑی تعداد میں کمرشلز کی برسات ہوتی ہے لیکن ان سب ’ٹاک شوز‘ سے حاصل حصول کچھ نہیں ہوتا، بھارتی انتہا پسند ذرائع ابلاغ جو دونوں ملکوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا اہم ہتھیار بنتا ہے، ایسے ٹاکروں سے ہٹ کر دیگر معاملات پر اُس کا کام پاکستان اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف صرف الزام تراشی اور پروپیگنڈا ہی رہتا ہے۔
پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ بھارت سے کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے اور سیاست کو کرکٹ سے دور رکھنے کا خواہش مند ہے لیکن یہ بھارتی ہٹ دھرمی ہی ہے جو ہر مقام پر پاکستان سے سفارتی اور تصفیہ طلب امور کی طرح کرکٹ کھیلنے سے بھی راہ فرار اختیار کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب جب پاکستان اور بھارت کا معرکہ سجتا ہے تو دونوں طرف کے ٹی وی چینلز پر ٹاکرے‘ معرکے اور دنگل جیسے پروگرامز بھی نشر ہونے لگتے ہیں۔ جس میں پاک بھارت کے سابق اور لیجنڈری کرکٹرز بیٹھ کر ماہرانہ تبصرے دے رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال اس وقت بھی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پاک بھارت معرکے سے قبل گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سرحد کے اُس اور اِس پار ٹی وی چینلز پر بس ’ٹاکرے‘ ہی چلے جارہے ہیں۔ بھاری بھاری معاوضے لے کر سابق کرکٹرز پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ کس کی ٹیم بھاری ہے اور کس کی ہلکی۔ کون اچھا بالر ہے تو کون بہترین بلے باز، کس کو کھلانا چاہیے اور کس کو نہیں، اور یہ سارے تبصرے وہ کھلاڑی کررہے ہیں، جو بخوبی واقف ہیں کہ اصل میچ، صرف میدان میں ہی ہوتا ہے اور دونوں ٹیمیں کسی صورت ان کے ’بے لاگ تبصرے‘ اور ’مشورے‘ بھی نہیں سن رہی ہوں گی۔بس بحث و مباحثے کے ذریعے ’ٹائم سلاٹ‘ کو بھرا جارہا ہے۔
تواتر کے ساتھ ایک جیسے فارمیٹ کے ان پروگراموں میں جہاں پچھلے مقابلوں کی بازگشت ہورہی ہے، وہیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ کس نے کب اور کیسے دوسرے کو ہرایا تھا۔ اسی نوعیت کے نصف درجن پروگرامز ہیں،جنہیں دیکھنے کے بعد سمجھ نہیں آتا کہ کس کی بات سنیں اور کس کی نہیں؟ ایک طرف بھارتی اینکر اور سابق کرکٹرز ہیں تو دوسری جانب پاکستانی، کوئی ماضی کے قصے سنا رہا ہے تو کوئی حال کے، یہ سب دعوے، باتیں اور پیش گوئیاں وہی ہیں،جنہیں گزشتہ کئی برسوں سے سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ دھول چٹانے اور خاک میں ملانے کے نعرے تو لگ رہے ہیں لیکن اس پہلو پر غور نہیں کیا جارہا کہ جب کرکٹ پر سب ایک ہوسکتے ہیں تو دیگر توجہ طلب باہمی معاملات پر ایسے پروگرامز کیوں نہیں کیے جاتے؟دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اِس وقت تو دونوں بورڈز کے سربراہان بھی پرانے افتتاحی بلے باز اور کپتان ہی ہیں۔
مانا کہ کرکٹ دونوں ملکوں کو جوڑ رہا ہے لیکن کیا سابق کرکٹرز قدم بڑھا کر دوسرے معاملات میں پہل نہیں کرسکتے؟ ۔ آخر سابق بھارتی کرکٹرز اپنے ذرائع ابلاغ کی اصلاح کا کام کیوں نہیں کرسکتے کہ پاکستان سے کرکٹ کھیلی جائے، وہی بھارتی ٹی وی چینلز جوسب سے زیادہ اس معاملے پر واویلا کرتے ہیں۔ کپل دیو اور سنیل گاواسکر کی طرح کیا باقی بھارتی سابق کرکٹرز اِس بات کی کوشش نہیں کرسکتے کہ دونوں ملکوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ مقابلے ہوں، تاکہ پھر سے یہ ٹیمیں کسی بھی مقابلے میں ٹکرائیں تو دیگر میچوں کی طرح واقعی اسے جنگ کے بجائے ’عام میچ ٗ ہی سمجھا جائے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ’ بس اِن سے مت ہارنا۔‘
Discussion about this post