مہیش سنجوانی نے بے زاری کے ساتھ ریموٹ ایک جانب رکھ دیا، مختلف ڈراما چینلز کو دیکھنے کے بعد نجانے کیسے اس کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ ان سارے ڈراموں میں کہیں بھی اس کی اپنی کہانی کیوں نہیں ہے؟ کیوں اس کے گھر کا ماحول کا کوئی کردار اسکرین پر نظر نہیں آتا؟ کیوں کوئی ایسا کردار نہیں، جو اس کی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو ؟۔
ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں
مہیش کا جنم پاکستان میں ہی ہوا تھا، یہیں پلا بڑا ہے ، اس کے دوست بھی یہیں کے ہی ہیں، قومی تہواروں پر وہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح وطن کی محبت سے سرشار رہتا ہے۔ وائٹل سائنز کا دل دل پاکستان تو جیسے اس کے انگ انگ میں بسا ہے ، پاکستانی کرکٹ ٹیم جب کسی میدان میں سرخرو ہوتی تو وہ بھی یار دوستوں کے ساتھ خوب جشن مناتا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ سبز ہلالی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کی ہی ترجمانی کررہا ہے ۔ تو پھر ان ڈراموں میں کہیں بھی اُس جیسا کردار بھلا کیوں نہیں ہوتا؟۔
یہی سوال جب اُس نے ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میری طرف اچھالا، تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مگر یہ سوال میرے ذہن پر ہتھوڑے بن کر برس رہا تھا۔
ڈراموں کا جائزہ لیا تو دنیا جہاں کا ہر کردار ملا، اچھا بھی برا بھی، کہیں کوئی کسی کی زندگی میں زہر گھول رہاتھا تو کہیں کوئی بہار لانے کی جستجو میں، کسی میں مزاح کے رنگ تھے تو کسی میں تلخی کے، لیکن نہ ملا تو کوئی اقلیتی کردار، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں اقلیتی شخصیات کی خدمات اپنی مثال آپ رہی ہیں، ان کے کارناموں اور خدمات پر ہر پاکستانی فخر محسوس کرتا ہے، جن کی تفصیل میں جانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ تو زبان زد عام ہے۔ پھر پاکستانی ڈراموں میں اقلیتی کردار وں کو پیش کرنے سے کیوں کترایا جاتا ہے؟
مذہب کیا ایک حساس موضوع ہے؟
مہیش کے سوال کی کھوج کے لیے جب ڈراما رائٹرز سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایک نیا رخ دکھایا۔ وفا بے مول، بھروسا پیار تیرا اور فطرت کی طرح کئی کامیاب ڈراموں کی رائٹر نزہت سمن کا کہنا ہے کہ ’ٹی وی چینلز کی پالیسی کچھ ایسی ہے کہ ہم اپنے ہی مذہبی مسائل کو ڈسکس نہیں کر سکتے۔ مذہبی رسوم و رواج نہیں دکھا سکتے اگر بہت ضروری ہو تو صرف نماز پڑھتے دکھا دینگے یا پھر کچھ بنیادی مسائل جیسے طلاق،شادی، یا عدت۔‘
نزہت سمن تو یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’ڈراموں میں خواتین کے حقوق پر سر سری بات کی جاتی ہے، اس سلسلے میں باقاعدہ بریفنگ دی جاتی ہے کہ مذہبی اور حساس معاملات اور موضوعات کو نہ چھیڑیں، حد تو یہ ہے کہ ہم اپنے مذہبی معاملات تک پر بھی بات نہیں کرسکتے، جہاں تک تعلق دوسرے مذاہب کا ہے تو اس میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر انہیں درست انداز میں پیش نہ کیا گیا تو کہیں یہ نہ کہا جائے کہ ہم نے ان کے کردار کو مسخ کردیا اور غلط تاثر ظاہر کیا۔ کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں، اسی لیے ایسا کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔‘
نزہت سمن چینلز کے کمرشل ازم کا شکوہ کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چینلز والے صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں، اسی لیے کسی بھی متنازعہ موضوع پر کام نہیں کرنا چاہتے۔وہ اس بات کی خواہش نہیں رکھتے کہ کوئی ایسا عمل کریں جس سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچے۔ مجھے تو یہی لگتا ہے چینل کسی جھنجھٹ میں نہ پڑنے کی وجہ سے ایسی کہانیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، مان لیں کہ ہم نے اقلیتی کرداروں کو عظیم بنا کر پیش کردیا تو نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کو یہ بات بری بھی لگ سکتی ہے۔‘
ٹکراؤ کا خدشہ؟
بابا کی رانی ، میں ادھوری ، دل برباد ، رشتے کچے دھاگوں سے اور پاکیزہ پھپھو جیسی مشہور ڈراموں کی رائٹر سیما شیخ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے رائٹر ہمیشہ سے معاشرے کے ہر پہلو اور ہر کردار پر لکھنا چاہتا ہے مگر وہ چینلز کی جانب سے ایک دائرے میں محصور ہو جاتا ہے۔ اقلیت ہی نہیں ہم اپنے مذہب کو بھی ڈرامے کا حصہ کم کم ہی بناتے ہیں کیونکہ یہاں بھی مختلف مسالک کے ٹکراؤ کا خدشہ رہتا ہے۔
سیما شیخ کا کہنا ہے کہ ’ اگر چینلز مختلف سوچ اور مختلف موضوعات پر مبنی ڈرامے بنانا شروع کریں تو یقینا اقلیتی ہی کیا منفرد کردار بھی دیکھنے کو ملیں گے لیکن بدقسمتی سے ہمارے چینلز لکھاری سے صرف وہ ہی کچھ لکھوانا چاہتے ہیں جو عام ڈگر پر گامزن اجتماعی سوچ ہے جس میں نقظہ اعتراض کا احتمال نہ ہو۔‘
ایک اور رائٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمارا بھی دل چاہتا ہے بالخصوص جب ہم غیر ملکی فلمیں یا ویب سیریز میں کوئی مثبت مسلم کردار دیکھیں تو اپنے ڈراموں میں بھی ایسے ہی اقلیت کردار پیش کریں، لیکن پروڈکشن ہاؤسز کسی بڑے تنازعے سے بچنے کے لیے ایسا کرنے سے مجبوری ظاہر کرتے ہیں۔‘
کیا یہ اچھا نہیں ہو کہ عام زندگی کی طرح ہمارے ڈراموں میں بھی اقلیت کردار چاہے وہ ہندو ہوں، سکھ یا مسیحی ان کی زندگی کے رنگ بھی دکھائے جائیں، جیسے کرسمس، ہولی، دیوالی اور دوسرے تہواروں کو ٹی وی چینلز میں جگہ ملتی ہے، تو کیا یہ تہوار کسی ڈرامے کا حصہ نہیں بن سکتے؟ ۔خیر تعریف کے قابل تو پی ٹی وی ہے جس کے ایک پروگرام کی میزبانی سکھ نوجوان ترن جیت سنگھ کرتے ہیں، جو پاکستان کے قابل فخر اور تفریح مقامات کے ساتھ ساتھ دلچسپ معلومات بھی ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔ یہ بھی کتنی دلچسپ بات ہے کہ بیشتر اقلیتی فنکار، ڈرامے کی کہانی کے مطابق مسلم کردار میں پیش ہونے میں ذرا سی بھی ہچکاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
Discussion about this post