پاکستان کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے مالی سال 2021-22 کے لیے 4 فیصد پیداوار کا تخمینہ مقرر کیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے مالی سال کے لیے 5 فیصد کی پیش گوئی کی تھی مگر آئی ایم ایف کا پاکستان کی 4 فیصد کے قومی پیداوار نے عالمی بینک کے دونوں دعوِوں جس میں اس نے پاکستان کی کل قومی پیداوار کا اندازہ4.3 لگایا تھا اور پاکستان کے مالی سال 2020 اور 21 کا قومی پیداوار جس کا حکومت نے 4 فیصد پر دعویٰ کیا تھا اسے بھی رد کردیا تھا۔ آئی آیم ایف نے پاکستان کے مالی سال 2020 اور 21 کے لیےاپنی رپورٹ میں 4 فیصد کے دعوے کی تصدیق کردی ہے۔ اپنی حالیہ رپورٹ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک 2021 کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی باور کرایا کہ ترقی یافتہ ممالک اس بات کو یقینی بنائیں کہ کووڈ خوراک کی رسائی تمام ممالک کو یکساں فراِہم کی جائے تاکہ ملکی ترقی کسی کی نہ رکے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی جو اس وقت 5 فیصد پر کھڑی ہے اور مالی سال 2021-22 میں 4.8 پر آجائے گی۔ البتہ تجارتی خسارہ بڑھے گا جو3.1 تک جائے گا۔ پچھلے برس تجارتی خسارہ 0.6 پر تھا۔ افراط زر مِیں 8.9 سے 8.5 تک بھی کمی آئے گی۔ یاد رہے اسی ہفتے وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کریں گے اور پاکستان کی اگلی قسط جو ابھی تک مارچ سے منسوخ ہے اسے پھر سے ریلیز کرانے پر زور دیں گے۔
آئی ایم ایف نے تقاضآ کیا ہے کہ پاکستان ٹیکس ریٹز میں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔
عالمی بینک کی رپورٹ:
گزشتہ جمعے کو عالمی بینک نے پاکستان کی شرح نمو 3.4 فیصد پر رہنے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ جو کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے ترقی کے اعداد وشمار جو4.7 پر جاتے ہیں ان کی بھی نفی کرتا ہے۔ پاکستانی مالیاتی اداروں نے ملکی شرح نموکا 4.7 کا تخمینہ لگایا تھا جو کہ مالیاتی 2020-21کے لیے تھا۔نا صرف یہ بلکہ عالمی بینک نے حالیہ برس کی 4 فیصد ترقی کے حکومتی دعوؤں کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ مزید یہ کہ اگر پاکستان 3.4 کی معاشی ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے آئی ایم آیف سے اپنے رکے ہوئے پروگرام کو پھر سے بحال کرانا ہوگا۔ یہ سب باتیں عالمی بینک نے اپنی سالانہ’ساؤتھ ایشیا اکنامکس فوکس‘کی رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے البتہ منگل کے روز اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں ملازمت کے مواقع کی تعداد ایک کروڑ سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔اس دعوے کو پرکھنے کے لیے عالمی بینک کے اعدادوشمار کو سامنے رکھیں تو شرح نمو میں کمی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ملک میں بے روزگاری اور موجودہ افرادی قوت سے کہیں زیادہ ہے۔ عالمی بینک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ بجلی کے نرخ میں اضافہ گردانہ ہے۔ مزید یہ کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت نے بھی مہنگائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یاد رہے حکومت ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں دنیا بھر سے نسباتاً سستی ہیں۔ البتہ خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان کی اس برس زرعی ترقی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا مگر صنعتی ترقی اور سروس سیکٹر میں کمی آنے کا امکان ہے۔
مرکزی بینک کا کیا کہنا تھا ؟
گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر نے بھی خبر دار کردیا تھا کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے معاشی طور پر تھوڑے سخت ہونگے۔اسٹیٹ بینک نے پچھلے ماہ ہی کچھ ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے یہ تا ثر مل رہا تھا کہ اسٹیٹ بینک قومی طلب کو اور مہنگائی کو قابو میں لانا چاہ رہا تھا۔ جیسے شرح سود میں اضافہ اور در آمد گاڑیوں پر ملنے والے قرض پر مکمل پابندی۔ اس وقت ڈالر 171 روپے پر ٹرید ہورہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اسی ہفتے 500 ڈالرز کی اوپن مارکیٹ سے خریدنے پر بائیو میٹرک تصدیق کی شرط لازمی قراردے دی ہے۔ پہلے صرف شناختی کارڈ کی تصدیق سے آپ ڈالرز خرید سکتے تھے۔ یہ اقدام اس لیے اٹھا یا گیا ہے تاکہ ڈالرز کی مانگ میں کمی آئے مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں سیاسی تبدیلوں نے ڈالرز کی مانگ میں اضافہ کردیا ہے۔
مزید پڑھیں:
Discussion about this post