دنیا بھر میں کرونا وبا کی وجہ سے ہر کوئی پریشان ہے ، جو اس مرض کا شکار ہوتا ہے ، اسے مجبوراً قرنطنیہ میں رہنے کا غم بھی سہنا پڑتا ہے جو کسی قید تنہائی سے کم نہیں ۔ جہاں بعض افراد نے اس دوران اسمارٹ فون کا سہارا لے کر اپنوں سے رابطہ بحال رکھا، وہیں کچھ ایسے بھی مریض ہیں جنہوں نے 14 روز کے الگ تھلگ رہنے کے اس عمل کو کتابوں یا پھر فلمیں دیکھتے ہوئے گزارا ۔ جاپانی سائنس دانوں نے ایسے عمر رسیدہ افراد جو اسمارٹ فون کے استعمال سے مانوس نہیں اور نا ہی کتابوں یا فلموں میں دلچسپی رکھتے ہیں ، ان کے لیے منفرد سہارا ڈھونڈ نکالتے ہوئے مصنوعی ذہانت سے آراستہ ننھی منی سی گڑیا ” امی چن ” پیش کی ہے۔
پیاری سی گڑیا کیا کرے گی ؟
یہ عمر رسیدہ اور ایسے افراد کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہے جو کرونا وبا کے دوران الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں ، ساتھ ہی وہ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ اس دوران کوئی ان سے ہم کلام ہو ، ایسے میں یہ گڑیا ان کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے پٹر پٹر باتیں کریں گی ، یہ ان بزرگ افراد کو نظمیں ، کہانیاں ، گیت سنانے کے علاوہ ان سے دریافت کیے گئے سوالوں کا جواب بھی دے گی ۔
کیا مصنوعی ذہانت سے آراستہ گڑیا کرونا مریضوں کے لیے ہی ہے ؟
جاپانی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، یہ گڑیا صرف کرونا وبا کا شکار افراد کے لیے بنائی گئی ہیں۔ جاپان میں کوئی 60 لاکھ بوڑھے افراد تنہا رہتے ہیں، ان کے لیے یہ گڑیا بہترین ساتھی ثابت ہوسکتی ہے ،جو ان کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے بہترین ہم سفر بن سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گڑیا کے چھوٹے بچوں کی طرح کپڑے بدلے جاتے ہیں، ان کے بال بھی سنوارے جاتے ہیں، اسی لیے ان بزرگوں کو ان کے بناؤ سنگھار کرتے ہوئے اپنے ننھے منے بچوں کی یاد بھی ستاتی رہے گی اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے وہ پھر سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں ۔
Discussion about this post