وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اتوار کوملک کا فیصلہ ہونے جارہاہے۔استعفیٰ کسی صورت نہیں دیں گے۔ ہار نہیں مانیں گے۔ تحریک عدم اعتماد پر ضمیر کا سودا نہیں ہورہا، بلکہ وطن کی بقا و سالمیت کا سودا ہورہا ہے۔ جو تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا انہیں عوام معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا انہیں مقابلہ کرنا آتاہے، کسی صورت سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ووٹنگ کا فیصلہ جو بھی ہو مزید تگڑا ہوکر ان کے سامنے آئیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار متحدہ اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایک بار پھر نیب زدہ سیاست دان حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق حکومت ملی تو ابتدا سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہو، ایسی پالیسی نہیں بنائیں گے کہ کسی اور کی تو بہتری ہو لیکن پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہو۔
وزیراعظم عمران خان نے تقریر کے دوران 8 مارچ کو ” امریکا سے ” اسی دوران انہیں غلطی کا احساس ہوا کہ اور پھر کہنا شروع کیا کہ ایک ملک سے پیغام موصول ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ خط وزیراعظم نہیں پاکستانی قوم کے خلاف ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو اس کے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ اگر عمران خان عدم اعتماد میں ہار جاتا ہےتو پھر ہم پاکستان کو معاف کردیں گے لیکن اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو پاکستان کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری اور نواز شریف کہتے ہیں کہ عمران خان چلا جائے اور یہ آجائیں تو سب سے بہتر ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کرپٹ افراد کو آنے کی کیسے اجازت دیں گے؟
Discussion about this post